عیوب کا محاسبہ کرے گا اور اللہ جس کے عیوب کا محاسبہ کرلے گا اسے اس کے گھر میں رسوا کردے گا۔‘‘ بدگمانی انسان کو غیبت کی دعوت دیتی ہے، اور دوسروں کی عزت پر بٹہ لگانے کے لیے ورغلاتی ہے اور سب سے آخر میں بدگمانی، مسلمانوں میں اختلاف کو ہوا دیتی ہے۔ اخوت کی رسیوں کو توڑتی ہے، محبت و الفت کی چادر چاک کرکے دشمنی، بغض اور کینہ و کپٹ کے بیج بوتی ہے۔ تو جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ یہ آفت بڑی مہلکات اور شدید خطرناکیوں کو سمیٹے ہوئے ہے، اسی لیے اسلام نے اس کی روک تھام کے لیے نہایت سخت موقف اختیار کیا اور بدگمانیوں سے بچنے پر ابھارا ۔ کیونکہ واقعات شاہد ہیں کہ اس کی پیروی کرنے اور اس کے جال میں پھنس جانے کا بہت برا انجام اور بے شمار نقصانات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ (الحجرات:12) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بہت سے گمان سے بچو، یقینا بعض گمان گناہ ہیں۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ اس آیت میں اپنے بندوں کو بہت زیادہ بدگمانیوں سے منع کرتا ہے، یعنی اپنے اہل واقارب اور عام لوگوں پر تہمت لگانے اور انھیں بے جا خیانت سے متہم کرنے سے روکتا ہے۔ اس لیے کہ بعض اوقات یہ باتیں خالص گناہ کا سبب ہوتی ہیں اور حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی، لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس سے جتنا ممکن ہوسکے بچا جائے۔‘‘ اس سے بچنے کا ذریعہ یہ ہے کہ اپنے جس مسلم بھائی کے بارے میں بدگمانی ہو رہی ہے اس کے لیے عذر تلاش کیا جائے، یعنی اس کی گفتگو یا حرکت کو کسی مناسب معنی پر محمول کیا جائے۔ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم اپنے مومن بھائی کی زبان سے کوئی نامناسب کلمہ سنو تو جب تک اسے کسی بھلائی پر محمول کرسکتے ہو تب تک اس کے بارے میں بہتر ہی سوچو۔[1] شدت پسندی اور دوسروں پر سختی: اس دور کی غلو پرستی کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ دوسروں کے ساتھ سختی کا بے جا استعمال کیا جاتا ہے اور یہ بات اس قدر عام ہے کہ جیسے دوسروں سے معاملات کرنے میں سختی اور شدت ہی اصل مطلوب ہے نہ کہ محبت اور نرمی، بعض نوجوانوں کے اندر تشدد کا یہی رجحان ایک طبعی عادت کی شکل اختیار کرچکا ہے اور اس کا دائرہ باتوں سے نکل کر عملی انجام تک وسیع ہوتا جارہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بے گناہوں کا خون ہو رہا ہے اور آبادیاں تباہ ہو رہی ہیں اور اس کے برے اثرات صرف تشددپسندوں کو نہیں بلکہ پوری امت کو لپیٹے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ پہلو قابل غور ہے کہ نوجوانوں میں سختی اور تشدد کا یہ رجحان کیوں اور کہاں سے پیدا ہوا؟ چنانچہ حالات و مشاہدات سے معلوم ہوتا ہے کہ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |