Maktaba Wahhabi

239 - 263
3.1۔اللہ تعالیٰ کو اپنے شرکاء کا علم نہ ہونا بہ ظاہر اس کے علمِ محیط کے خلاف ہے‘اس کی توجیہ میں مفسرین کی عبارات: ’’قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ‘‘[1] الشیخ امام احمد رضا خان بریلوی نے اس آیت کا ترجمہ کیا ہے: ’’تم فرماؤ کیا اللہ کو وہ بات جتاتے ہو جو اس کے علم میں نہ آسمانوں میں ہے نہ زمین میں ہے۔‘‘ شیخ اشرف علی تھانوی دیوبندی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: (یعنی خدا تعالیٰ کو ان چیزوں کے شفیع یا معبود بحق ہونے کے وقوع کا یا امکان کا علم نہیں اور خدا تعالیٰ کا علم تمام اشیاء کو محیط ہے پس جب ان کا علم نہیں تو معلوم ہوا کہ ان کا وقوع یا امکان باطل ہے‘پس عدم اور استحالہ حق ہے اس سے عقیدۂ شرک کا بطلان لازم آگیا پس وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے۔[2] صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: کیونکہ اس کا وجود ہی نہیں‘کیونکہ جو چیز موجود ہے وہ ضرور علمِ الٰہی میں ہے۔[3] مفتی احمد یا ر خان نعیمی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: یعنی ان بتوں کی شفاعت نہ دنیا میں ہے نہ آخر میں۔اگر ہوتی تو رب تعالیٰ کے علم میں ہوتی‘علمِ الٰہی کی نفی سے اصل نفی مراد ہے۔[4] شیخ عبد الماجد دریا آبادی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: اور ظاہر ہے کہ جو چیز اللہ کے علم میں نہیں تواس کا وجود ہی باطل ہے۔[5] سید ابو الاعلیٰ مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: کسی چیز کا اللہ کے علیم میں نہ ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ سرے سے موجود ہی نہیں‘اس لیے کہ سب کچھ جو موجود ہے اللہ کے علم میں ہے۔[6]
Flag Counter