’’یہ میرے وقوف کرنے کی جگہ ہے ویسے پورا عرفہ وقوف کرنے کی جگہ ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ سے اپنی سواری کو تیز رفتار سے چلاتے ہوئے نکلے اور لوگ بھی آپ کے دائیں بائیں اپنے اونٹوں کو تیزی سے ہانکتے ہوئے تیز چلے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے : ((أَیُّہَا النَّاسُ اَلسَّکِیْنَۃَ أَیُّہَا النَّاسُ اَلسَّکِیْنَۃَ)) ’’اے لوگو! وقار وسکون کی چال چلو۔‘‘ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ پہنچے، مغرب اور عشاء دو نمازوں کو اکٹھا پڑھا، اور مزدلفہ میں قیام کرتے ہوئے ایک بلند مقام پر قیام فرمایا اور اپنے پیچھے فضل بن عباس کو سوار کیا اور فرمایا: ((ہَذَا الْمَوْقِفُ وَکُلُّ الْمُزْدَلِفَۃِ مَوْقِفٌ)) یہ میرے وقوف کرنے کی جگہ ہے ویسے پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے۔ پھر اپنی سواری کو ہانکا اور کچھ تیز چلے، لوگ بھی آپ کے دائیں بائیں اونٹوں کو تیزی سے ہانکتے اور چلتے۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے ((اَلسَّکِیْنَۃَ، اَلسَّکِیْنَۃَ أَیُّہَا النَّاسُ)) ’’اے لوگو! پرسکون اور وقار کے ساتھ چلو۔‘‘ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب وادی محسَّر پہنچے تو اپنی سواری کوتیزی سے مارا، وہ کودتے ہوئے آگے بڑھی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وادی کو پار کر گئے، پھر آپ اپنی رفتار پر واپس لوٹ آئے اور منی پہنچ کر جمرہ کی رمی کی، پھر منحر (قربان گاہ) آئے اور کہا: یہ میری قربان گاہ ہے ویسے پورا منیٰ قربانی کی جگہ ہے۔ اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ خثعم کی ایک نو خیز عورت آئی، اور کہا، میرے باپ بہت بوڑھے اور لاغر ہو چکے ہیں، اور ان پر فریضۂ حج واجب ہوچکا ہے، حالانکہ وہ حج کی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتے۔ کیا اگر میں ان کی طرف سے حج کروں تو ان کے لیے کافی ہوجائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔اور پھر آپ فضل بن عباس کا چہرہ اس لڑکی کی طرف سے پھیرنے لگے۔ پھر ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: میں رمی جمار اور طواف افاضہ سے فارغ ہو کر کپڑاپہن چکا ہوں اور ابھی سر نہیں منڈوایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں، سرمنڈوالو پھر ایک آدمی آیا اورکہا میں رمی جمار کرکے حلال ہوچکا ہوں، اور لباس پہن لیا ہے اور اب تک قربانی نہیں کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی حرج نہیں قربانی کرلو، پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے، مکہ میں آپ نے ایک ڈول میں زمزم کا پانی منگوایا، اسے نوش کیا اور وضو کیا پھر فرمایا: اے آل عبدالمطلب لو اب تم زمزم کا پانی نکالو، اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ( اسے مناسک حج کا حصہ سمجھ کر ) لوگ تم پر غالب آنے لگیں تو میں خود پانی نکالتا، عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے : اے اللہ کے رسول! میں نے دیکھا کہ آپ اپنے بھتیجے فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیررہے تھے، ایسا کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؟ میں نے ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی کو دیکھا تو ان پر شیطان کے حملہ سے میں ڈر گیا۔ [1] اس حج کے موقع پر علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی تنقیذ میں ترجمان کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ عمروبن سلیم اپنی ماں سے روایت کرتے ہیں کہ ہم منیٰ میں تھے کہ اچانک علی رضی اللہ عنہ کو اعلان کرتے ہوئے سنا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |