وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ ﴿٨٨﴾ (یونس:88) ’’اے عمر! تمھاری مثال تو نوح علیہ السلام جیسی ہے کہ جب انھوں نے کہا: اے میرے پالنے والے! تو روئے زمین پر کسی کافر کو رہنے سہنے والا نہ چھوڑ۔ اور تمھاری مثال تو موسیٰ علیہ السلام جیسی ہے کہ جب انھوں نے کہا: اے ہمارے رب! ان کے اموال کو نیست و نابود کردے اور ان کے دلوں کو سخت کردے، سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں۔‘‘ [1] اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ابراہیم اور موسیٰ رحمۃ اللہ علیہم سے اور عمر رضی اللہ عنہ کو نوح اور موسیٰ رحمۃ اللہ علیہم سے تشبیہ دی، جب کہ یہ لوگ اولوالعزم انبیاء میں سے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد روئے زمین پر سب سے بہتر انسان ہیں اور یہ لوگ ہارون علیہ السلام سے کئی درجہ افضل ہیں (ان پراللہ کی رحمتیں اور سلامتی نازل ہو) پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو ہارون علیہ السلام سے تشبیہ دے کر آپ کو اعزاز بخشا، جس طرح کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو ابراہیم، عیسیٰ اور نوح و موسیٰ علیہم الصلاۃ والسلام سے تشبیہ دے کر اعزاز بخشا، اس کے علاوہ اس تشبیہ کا اور کوئی مقصد نہیں۔[2] مذکورہ حدیث شارحین حدیث کی نگاہ میں: امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’اس حدیث میں کسی شیعہ کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس میں فضیلت علی کا ثبوت ہے، اس میں اس بات سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہے کہ آپ دوسروں سے افضل یا اپنے جیسوں سے افضل ہیں، اسی طرح اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بلا فصل علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات علی رضی اللہ عنہ سے اس وقت کہی تھی جب غزوۂ تبوک کے موقع پر انھیں مدینہ میں اپنا نائب بنا رہے تھے، پس ہمارے استدلال کو تقویت اس بات سے ملتی ہے کہ وہ ہارون علیہ السلام کہ جن سے علی رضی اللہ عنہ کو تشبیہ دی گئی ہے، موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ نہ تھے، بلکہ موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ان کی وفات ہوگئی، مؤرخین و واقعات نگاروں کے بقول موسیٰ علیہ السلام کی وفات سے تقریباً چالیس سال قبل ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام کی وہ نیابت ملی تھی جس میں آپ اپنے رب سے مناجات کے لیے چلے گئے تھے۔[3] ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے روافض کے استدلال کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث علی رضی اللہ عنہ کی دوسروں پر کسی افضلیت کو واجب نہیں ٹھہراتی اور نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بلا فصل استحقاق خلافت کا ثبوت فراہم کرتی ہے، اس لیے کہ ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنواسرائیل کے حکمران نہیں بنے، بلکہ یوشع بن نون جو کہ موسیٰ علیہ السلام کے ایک نوجوان ساتھی تھے اور خضر علیہ السلام کی تلاش میں آپ کے ساتھ سفر پر نکلے تھے، انھوں نے بنواسرائیل کی ذمہ داری سنبھالی تھی، جس طرح کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت محمدیہ کی قیادت کی باگ ڈور آپ کے اس |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |