((مَنْ بَطَّأَ بِہِ عَمَلُہُ لَمْ یُسْرِعْ بِہِ نَسَبُہُ۔))[1] ’’جسے عمل نے پیچھے ڈال دیا ہو اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا۔‘‘ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی خاندان یا کوئی نسل تعظیم و احترام کی صرف اپنے نسب کی وجہ سے مستحق ہے، اورنہ یہ کہ دینی قیادت، روحانی سیادت، یا عملی وجاہت کسی خاندان کی جاگیر سمجھی جائے، او رنہ دائمی طور سے کسی ایک ہی خاندان کے حصہ میں ہمیشہ کے لیے عملی و دینی سیادت باقی رہنے کی ضمانت ہے۔ اسلام سے پہلے دنیا کو نسب پرستی کی بنا پر بدترین سماجی اور اخلاقی انارکی کا سامنا کرنا پڑا، انتہائی سخت قسم کی آمریت (Dictatorship) اورانتہائی بھیانک انداز کا مادی استحصال ہوتا رہا ہے،اس کے بے شمار واقعات تاریخ کی کتب میں موجود ہیں۔ رومی اور ساسانی شہنشاہوں اور ہندی و یونانی تہذیبوں کے بارے میں اس کی واضح شہادتیں موجود ہیں۔[2] لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ اس نسل و خاندان کی اجتماعی و سماجی حیثیت کا جائزہ لیں، جس میں امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے اور پروان چڑھے اور یہ دیکھیں کہ اس قبیلہ و خاندان کی امتیازی خصوصیات کیا تھیں؟ ان کے یہاں کیا روایات تھیں، اور اخلاق و نفسیاتی وراثت میں کیا باتیں تھیں اور یہ کہ ان کو دوسرے عرب قبائل کس نظر سے دیکھتے تھے اور کس درجہ ان کی خوبیوں کے قائل تھے، لہٰذا اس سلسلہ میں ہم قبیلۂ قریش، پھر بنوہاشم کے خاندان کا ذکر کریں گے۔[3] قبیلۂ قریش: تمام اہل عرب قریش کے عالی نسبی کے معترف تھے اوراس بات میں ان کے درمیان دو آراء نہیں تھیں کہ قریش کو قبائل عرب پر خاندانی تفوق و برتری حاصل ہے، ان کی زبان اور لب و لہجہ دوسروں کے لیے معیار تھا، مہمان نوازی اور شجاعت و جواں مردی کے جوہر ان میں امتیازی طور سے پائے جاتے تھے، یہ بات اس درجہ سے مسلم تھی کہ وہ ضرب المثل بنے ہوئے تھے۔[4] اس قبیلہ کی شاخیں آپس میں ایک دوسرے کی حلیف تھیں، وہ قبائلی خصوصیات کو عزیز رکھتی تھیں اور شریعت ابراہیمی پر بہت حد تک کاربند تھیں، یہ لوگ ان بدوی قبائل کی طرح نہیں تھے جن کا نہ کوئی مذہب تھا اور نہ وہ آداب معیشت کے لحاظ سے کوئی امتیازی شان رکھتے تھے۔ قریش کی امتیازی خصوصیات میں یہ خصوصیت بھی تھی کہ وہ اپنی اولاد سے محبت رکھتے تھے، خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے، مناسک حج ادا کرتے تھے، میت کو کفن پہناتے اور غسل جنابت کرتے تھے، ہندوستان یا ایران کی طرح ان میں برہمنوں یا آتش کدہ کے خاندانی منتظموں کی طرح پروہتوں (Priests)کا کوئی طبقہ نہیں پایا جاتا تھا وہ اس سے دور تھے۔ شادی بیاہ ذرا دور کی قرابت میں کرتے، نکاح میں گواہوں اور مہر کا التزام رکھتے۔ طلاق صرف تین بار دیتے،[5] بیٹی، نواسی، بہن اور بھانجی سے اس وقت کے ایرانی مجوسیوں کی طرح مناکحت نہیں کرتے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |