یا قلمکار اس موضوع کی مجروح و موضوع روایات سے معلومات حاصل کرے گا اور ’’الامامۃ و السیاسۃ‘‘، ’’کتاب الاغانی‘‘، ’’مروج الذہب‘‘، ’’تاریخ الیعقوبی‘‘ اور جارج زیدان کی ’’تاریخ التمدن الاسلامی‘‘ جیسی غیر معتمد کتب پر اعتماد کرے گا اس کی نوک قلم سے ایسی باتوں کا صادر ہونا ایک طبعی چیز ہے۔[1] ایک حدیث کی تحقیق: سیّدہ عائشہ اور علی رضی اللہ عنہما کے درمیان لڑائی سے متعلق بعض لوگوں کے یہاں ایک روایت مشہور ہے: ((تُقَاتَلِیْنَ عَلِیًّا وَ أَنْتِ لَہُ ظَالِمَۃٌ۔)) ’’تم علی سے قتال کرو گی، اس حال میں کہ تم ہی ظالم ہوگی۔‘‘ یہ ایسی روایت ہے جس کا حدیث کی کسی معتمد کتاب میں کہیں وجود نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی سند ہے، چہ جائے کہ ہم اسے جھوٹی اور من گھڑت روایات کے قریب ترین کہیں، قطعیت سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ روایت سراسر جھوٹ ہے، اس لیے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نہ قتال کیا اور نہ اس کے لیے نکلی تھیں، آپ کے نکلنے کا مقصد صرف ایک تھا، یعنی لوگوں کے درمیان مصالحت، نہ خود لڑائی میں شریک ہوئیں، نہ کسی کو لڑنے کا حکم دیا، اخبار و روایات کی معرفت رکھنے والے کئی ایک علماء نے یہی بات کہی ہے۔[2] امیر المومنین علی ، عائشہ رضی اللہ عنہما کو بحفاظت احترام و اعزاز سے ان کے گھر (مدینہ) پہنچاتے ہیں: جنگ ختم ہوجانے کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے سواری، دیگر ضروریات اور زاد سفر مہیا کیا، ان کے ساتھ جو لوگ بصرہ آئے تھے اور بچ گئے تھے اور جانے کو تیار تھے، ان کو بھی تیار کیا، البتہ ان میں سے جن لوگوں نے بصرہ میں قیام کو پسند کیا وہ رک گئے، آپ نے بصرہ کی معروف و مشہور چالیس عورتوں کو بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ روانہ کیا اور محمد بن ابوبکر سے کہا: اپنی بہن کے ساتھ سفر کی تیاری کرو، جب کوچ کا دن آیا تو علی رضی اللہ عنہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھیں رخصت کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، لوگ بھی حاضر ہوئے، عائشہ رضی اللہ عنہا باہر تشریف لائیں اور لوگوں کو رخصت کیا، اس وقت آپ رضی اللہ عنہا نے لوگوں سے فرمایا: اے میرے بیٹو! ہم جلد بازی میں ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوگئے، آئندہ ہمارے ان اختلافات کے باعث کوئی شخص ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرے، اللہ کی قسم! میرے اور علی کے درمیان شروع سے کوئی اختلاف کبھی نہ تھا، البتہ عورت اور اس کے سسرالی رشتہ داروں کے درمیان جو بات عام طور سے ہوا کرتی ہے وہی تھی۔ فی الحقیقت وہ میرے نزدیک نیک اور اچھے آدمی ہیں، اس کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ کی قسم ام المومنین نے سچ فرمایا اور اچھی بات کہی، میرا اوران کا اختلاف واقعتا اسی قسم کا تھا، اور عائشہ رضی اللہ عنہا دنیا و آخرت میں تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔‘‘ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |