Maktaba Wahhabi

159 - 1201
فرمایا: ’’دھیان سے سنو! میں نے تمھارا نکاح ایسے شخص سے کردیا ہے جو میرے اہل بیت میں میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ پھر آپ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا پر بھی پانی کے چھینٹے مارے، اور ان کے لیے دعائے خیر فرمائی، پھر لوٹ کر جانے لگے کہ اتنے میں آپ کی نظر سامنے ہی ایک سایہ پر پڑی، پوچھنے لگے: ((مَنْ ہٰذَا)) ’’یہ کون ہے؟ ‘‘میں بول پڑی کہ میں ہوں، آپ نے کہا: کون اسمائ؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے کہا: اسماء بنت عمیس ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے کہا: ((جِئْتِ فِيْ زَفَافِ بِنْتِ رَسُولِاللّٰہِ صلي الله عليه وسلم تَکْرِمَۃً لَّہُ؟)) ’’کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز و اکرام میں بنت رسول کی رخصتی میں آئی تھیں؟‘‘ میں نے کہا: ہاں۔ پھر آپ نے میرے لیے دعا فرمائی۔[1] 3۔ ولیمہ: سیّدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب جنابِ علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو پیغام نکاح دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّہُ لَابُدَّ لِلْعُرْسِ مِنْ وَلِیْمَۃٍ۔))… ’’شادی کے لیے ولیمہ ضروری ہے۔‘‘ راوی کا بیان ہے کہ سعد نے کہا: میرے پاس ایک دنبہ ہے، پھر چند صحابہ کی جماعت نے مل کر کئی صاع مکئی کا آٹا جمع کیا اور جب شب زفاف آئی تو آپ نے فرمایا: اے علی! مجھ سے ملاقات کرنے سے پہلے تم کوئی اقدام مت کرنا، پھر آپ نے پانی منگوایا اور اس سے وضو کیا، پھر اسے علی رضی اللہ عنہ پر انڈیل دیا، او ریہ دعا دی: ((اَللّٰہُمَّ بَارِکْ فِیْہِمَا وَ بَارِکْ عَلَیْہِمَا وَبَارِکَ فِيْ شِبْلِہِمَا۔))[2] ’’اے اللہ! ان دونوں میں برکت عطا فرما اور ان سے جو بہادر اولاد ہو اس میں بھی خیر و برکت دے دے۔‘‘ 4۔ سیّدنا علی اور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کی معیشت: سیّدنا علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کافی زہد و تنگی کی زندگی گزارتے تھے، حالانکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بڑے محبوب تھے، چنانچہ ہناد، عطاء سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ علی رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: ہم نے کئی کئی روز فاقہ کشی کی ہے، ہمارے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کچھ نہ ہوتا تھا، ایک مرتبہ میں گھر سے باہر گیا، راستہ میں مجھے ایک دینار پڑا ہوا ملا، میں تھوڑی دیر وہاں تردد میں ٹھہرا رہا کہ اسے اٹھاؤں یا چھوڑ دوں، لیکن افلاس کی شدت تھی ، اس لیے میں نے اسے لے لیا اور ان شتر بانوں کو دیا جو باہر سے غلہ لائے تھے، ان سے آٹا خرید لیا، پھر اسے لے کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا او ران سے کہا: اسے گوندھو اور روٹی پکاؤ، وہ آٹا گوندھنے لگیں، مگر فاقہ کی وجہ سے اتنی کمزور تھیں کہ آٹا گوندھنے میں ہاتھ بار بار برتن پر گر جاتا اور چوٹ لگتی، بہرحال کسی طرح انھو ں نے آٹا گوندھ کر روٹی پکائی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر آپ کو یہ واقعہ سنایا، آپ نے فرمایا: ((کُلُوہ فَاِنَّہُ رِزْقٌ رَزَقَکُمُوہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔))[3]
Flag Counter