Maktaba Wahhabi

180 - 1201
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ غزوۂ بنونضیر میں: محقق مؤرخین کا خیال ہے کہ غزوۂ بنونضیر، غزوۂ احد کے بعد ربیع الاوّل 4ھ میں ہوا، او رامام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے محمد بن شہاب زہری وغیرہ مؤرخین کے اس قول کی تردید کی ہے کہ غزوۂ بنونضیر غزوۂ بدر کے چھ مہینے بعد ہوا، آپ فرماتے ہیں: یہ ان کا وہم ہے، یا ان کی طرف غلط نسبت کر دی گئی ہے، صحیح بات یہ ہے کہ غزوۂ بنونضیر، غزوۂ احد ہی کے بعد ہے۔ غزوۂ بدر کے بعد جوغزوہ ہے وہ غزوۂ بنوقینقاع ہے، اور پھر غزوۂ بنوقریظہ غزوۂ خندق کے بعد اور غزوۂ خیبر غزوۂ حدیبیہ کے بعد ہے۔[1] ابن العربی او رابن کثیر کی بھی یہی رائے ہے۔[2] اس غزوہ میں دوران محاصرہ ایک رات علی رضی اللہ عنہ صحابہ کو نظر نہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ وہ تمھارے لیے ہی کسی کام پر گئے ہیں، پھر کچھ ہی دیر میں تن سے جدا ایک سر لے کر آئے، آپ اس کی گھات میں لگے تھے وہ یہودیوں کی ایک جماعت کے ساتھ مسلمانو ں کو دھوکا سے قتل کرنے نکلا تھا، وہ کافی بہادر اور بہترین تیر انداز تھا، علی رضی اللہ عنہ نے اس پر اپنی گرفت مضبوط کی اور اسے قتل کردیا، پھر دوسرے یہودی وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔[3] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ غزوہ حمراء الاسد میں: دراصل یہ غزوہ، غزوۂ احد کی تکمیل اور اس کی آخری کڑی ہے، پندرہ شوال 3ھ کو شنبہ کی شام کو مسلمان غزوۂ احد سے لوٹ کر گھروں کو واپس آئے تھے اور ابھی رات گزار کر فجر کی نماز کے لیے باہر نکلے ہی تھے کہ موذن رسول نے جلد سے جلد دشمنوں کو دور بھگانے کی فورًا تیاری کا اعلان کیا، او رکہا کہ اس مہم میں صرف وہی لوگ شریک ہوں ، جنھوں نے غزوۂ احد میں شرکت کی ہو، چنانچہ شرکائے اُحد اگرچہ زخم خوردہ اور تھکن سے چور تھے تاہم اعلان نبوی پر لبیک کہا، اس مہم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیش پیش تھے۔ آپ نے عبداللہ بن ابی کو اپنے ساتھ چلنے کی اجازت نہ دی اور نہ جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حزام رضی اللہ عنہما کے علاوہ کسی دوسرے غیر شرکاء کو شرکت کی اجازت دی، انھیں اجازت اس وجہ سے دی تھی کہ ان کے باپ غزوۂ احد میں شہید ہوگئے تھے اور بدر و اُحد میں خوداس لیے شرکت نہ کرسکے تھے کہ گھر پر اپنی جواں سال بہنوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے، بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہم کو آگے بڑھایا، اور مسلمانوں کا لشکر حرکت میں آگیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش پیش ہیں اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ غزوۂ احد کا پرچم یہاں بھی اٹھائے ہوئے ہیں، پھر مسلمانو ں کا لشکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں حمراء الاسد تک پہنچتاہے، جو کہ مدینہ سے تیرہ میل کے فاصلہ پر ہے، وہاں مسلمانوں نے اپنے کجاوے اتار دیے، مسلمانو ں کی اس جرأت مندانہ اور بہادرانہ حرکت کو دیکھ کر یہودیوں اور منافقوں کا دل خوف سے دہل گیا اور انھیں یقین ہوگیا کہ مسلمانو ں کی روحانی قوت بہت بلند اور مضبوط ہے اور اگر یہ شکست خوردہ ہوتے تو قریش کا پیچھا نہ کرتے۔[4]
Flag Counter