Maktaba Wahhabi

1002 - 1201
تردید و تنقید: ا: یہ آیت کریمہ سورہ شوریٰ کی ہے، جو کہ تمام علمائے سنت کے نزدیک متفقہ طور سے مکی سورت ہے۔[1]اور یہ معلوم ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے غزوہ بدر کے بعد نکاح کیا اور حسن رضی اللہ عنہ 3 ھ میں اور حسین رضی اللہ عنہ 4ھ میں پیدا ہوئے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی پیدائش سے چند سالوں پہلے ہی نازل ہوئی ہے۔ پھر بھلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے رشتہ سے محبت کے وجوب کی بات کیوں کر کہہ سکتے ہیں جس کا ابھی سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔[2] ب: روافض کی مذکورہ تفسیر، صحیح بخاری میں وارد تفسیر کے خلاف ہے، چنانچہ امام بخاری نے اپنی سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما تک روایت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ سے إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ کے بارے میں پوچھا ہی جارہا تھا کہ تب تک سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ اس سے آل محمد کی قرابت داری مراد ہے، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: تم نے جلد بازی کردی، قریش کی کوئی شاخ ایسی نہیں جس میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت داری نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ: ((إِلَّا اَنْ تُصَلُّوْا مَا بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ مِنَ الْقَرَابَۃِ۔))[3]’’تم سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اس قرابت داری کی وجہ سے صلہ رحمی کا معاملہ کرو، جو میرے اور تمھارے درمیان موجود ہے۔‘‘ اس اثر کی تشریح میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ ہیں ترجمان القرآن ابن عباس رضی اللہ عنہما اور علی رضی اللہ عنہ کے بعد اہل بیت میں سب سے بڑے عالم دین، جو فرماتے ہیں کہ اس کا معنی قرابت داری کی مودت و محبت نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اے عرب کے لوگو! اور اے قریش کی جماعت! میں اپنی دعوت کی تم سے کوئی اجرت نہیں مانگ رہا ہوں، بس صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے اور تمھارے درمیان جو رشتہ ہے وہ باقی رکھو۔ گویا آپ جن لوگوں کے درمیان بھیجے گئے تھے ان سے آپ نے صلہ رحمی کا مطالبہ کی کہ وہ آپسی تعلقات کا لحاظ کریں اور مخالفت میں حد سے تجاوز نہ کریں، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کا دین پہنچا سکیں۔[4] ج: آیت کریمہ کی تفسیر میں ان لوگوں نے جو حدیث ذکر کی ہے وہ تمام علمائے حدیث کے نزدیک بالاتفاق جھوٹی اور گھڑی ہوئی ہے اور وہی اس سلسلہ میں مرجع ہیں، ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو منصوص طور سے ذکر کیا ہے۔[5] اسی طرح ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں ذکرکی جانے والی تمام روایات کا تتبع کیا ہے، اور یہ بات واضح کردی ہے کہ جن احادیث سے صرف فاطمہ اور ان کی اولاد تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت داری ثابت ہوتی ہے
Flag Counter