معرکۂ نہروان 38ھ 1۔ سبب معرکہ: یہ بات گزر چکی ہے کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کو ان کے اپنے نظریات پر اس شرط کے ساتھ باقی رہنے دیا تھا کہ وہ ناحق کسی کا خون نہ بہائیں گے، کسی عام آدمی کو خوف زدہ نہ کریں گے، اور نہ کسی مسافر کا راستہ روکیں گے، اگر ان شرائط کی مخالفت ہوئی تو پھر جنگ ہی ہوگی۔ لیکن خوارج نے اپنے مخالفین کی تکفیر کے عقیدہ کے پیش نظر اپنے مخالف کے خون اور مال کو حلال سمجھا اور مسلمانوں کا ناحق خون بہانے کا سلسلہ شروع کردیا، یوں تو ان کے ارتکاب جرائم اور معاہدہ کی خلاف ورزیوں سے متعلق متعدد روایات وارد ہیں، لیکن سب سے صحیح روایت وہ ہے جسے چشم دیدگواہ پیش کر رہا ہے، جو پہلے خارجی تھا لیکن پھر اس نے توبہ کرلی، اس کا بیان ہے کہ میں نہر والوں کے ساتھ تھا، لیکن ان کی حرکتیں مجھے ناپسند تھیں، تاہم میں نے اپنی ناپسندیدگی کو اس ڈر سے چھپایا کہ کہیں یہ لوگ مجھے قتل نہ کردیں، چنانچہ جب میں ان کی ایک جماعت کے ساتھ تھا، ہم ایک گاؤں کے پاس گئے، ہمارے اور اس گاؤں کے درمیان ایک نہر حائل تھی، اچانک ایک آدمی اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے اور انتہائی گھبرایا ہوا گاؤں سے باہر نکلا۔ ہماری جماعت کے لوگوں نے کہا: شاید تم ہم سے گھبرا گئے ہو؟ اس نے کہا: ہاں، انھوں نے کہا: گھبراؤ نہیں۔ دل میں مَیں نے کہا: یقینا یہ لوگ اسے پہچانتے ہوں گے اور میں اسے نہیں پہچانتا، پھر انھوں نے کہا: کیا تم صحابی رسول خباب کے بیٹے ہو؟ اس نے کہا: ہاں، پھر انھوں نے کہا: کیا تمھارے پاس کوئی ایسی حدیث ہے جو تمھارے باپ کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہو، انھوں نے کہا: ہاں، میں نے اپنے باپ سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فتنہ کا ذکر کیا اور فرمایا: (( اَلْقَاعِدُ فِیْہَا خَیْرٌ مِّنَ الْقَائِمِ، وَ الْقَائِمِ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِیْ، وَ الْمَاشِیْ فِیْہَا خَیْرٌ مِّنَ السَّاعِیْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَکُوْنَ عَبْدَاللّٰہِ الْمَقْتُوْلَ فَلَا تَکُنْ عَبْدُاللّٰہِ الْقَاتِلَ۔))[1] ’’یعنی اس میں بیٹھا رہنے والا کھڑے رہنے والے سے بہتر ہے اور کھڑا رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہے، اگر تم اس میں پڑ جاؤ تو اے عبداللہ تم مقتول ہونے کو ترجیح دو گے، قاتل بننے کو نہیں۔‘‘ پھر انھوں نے ان کو اور ان کی ایک لونڈی کو پکڑ لیا اور آگے بڑھتے ہوئے ایک نخلستان میں کھجور کے درخت سے گرا ہوا ایک پھل اٹھا کر ان میں سے ایک نے کھا لیا، اس پر دوسرے ساتھیوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ یہ معاہد کا پھل ہے بغیر مالک کی اجازت کے تم نے کیوں کھا لیا؟ چنانچہ اس نے اپنے منہ سے کھجور اگل دی، پھر وہ لوگ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |