Maktaba Wahhabi

652 - 1201
المومنین اور اہل بصرہ کی ایک قابل ذکر تعداد کی طرف سے عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھیوں کی اصلاحی کوششوں کو حمایت وتائید حاصل تھی۔[1] اہل بصرہ کے مویدین اتنی تعداد میں تھے کہ انھیں نظر انداز کردینا آسان نہیں ہے، ان کے بارے میں طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ یہ لوگ بصرہ کے شریف ترین اور دین دار لوگ ہیں۔[2]اور ان لوگوں کے بارے میں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’یہ وہاں کے نیک لوگ ہیں۔‘‘[3]صاف ظاہر ہے کہ نیکوکاروں اورشرفاء کی اتنی بڑی جماعت نیک نیتی اور کارروائی کے فائدہ پر مضبوط عقیدہ رکھ کر ہی باہر نکلی ہوگی۔ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ اسے اچھی طرح سمجھ رہے تھے، اور اپنے عمل سے اس غلط نظریہ کی تردید کرنا چاہتے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکلنے والے لوگ ہنگامہ پسند، اوباش اور نادان ہیں۔[4]یہی وجہ تھی کہ جنگ جمل کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا کی جماعت کے مقتولین میں آپ کھڑے ہوئے، ان کے فضل وعظمت کو سراہا اور ان کے لیے اللہ سے رحمت کی دعا کی۔[5] اس کی تفصیلات آگے آرہی ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ کارروائی ہنگامی اور بے مقصد نہ تھی کہ جس میں عائشہ رضی اللہ عنہا نے غیر صالح اور بے عمل لوگوں پر دباؤ بڑھایاہو، بلکہ کمال احتیاط اور نہایت بیدارمغزی سے کارروائی تھی جس میں بعض جلیل القدر صحابہ بھی شریک تھے۔[6] دمِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بدلہ کی کارروائی سے متعلق دیگر امہات المومنین کا موقف: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر ازواج مطہرات اس موقع پر فتنہ سے بچنے کے لیے مکہ حج کرنے چلی گئیں اور جب مکہ کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے تو یہ مکہ ہی میں ٹھہر گئیں۔ حالانکہ یہ مکہ سے مدینہ کے لیے روانہ ہو چکی تھیں، لیکن پھر واپس آگئیں اور انتظار کرنے لگیں کہ لوگ اب کیا کرتے ہیں؟ اور اچھی خبریں کب آتی ہیں۔ جب علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر بیعت ہوگئی تو بہت سارے صحابہ مدینہ چھوڑ کر مکہ چلے آئے، مدینہ میں شرپسندوں اور ہنگامہ کرنے والوں کی کثرت دیکھ کر انھوں نے وہاں رہنا پسند نہیں کیا۔ اس طرح بے شمار صحابہ، مع امہات المومنین رضی اللہ عنھن مکہ میں اکٹھا ہوگئے۔[7] جب گفت وشنید کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا نے تمام لوگوں کو مدینہ چلنے کا مشورہ دیا، تو ازواج مطہرات نے بھی آپ کی تائید کی۔ لیکن جب آپ رضی اللہ عنہا ، اور آپ کے ساتھ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اس بات پر متفق ہوئے کہ مدینہ کے بجائے بصرہ کا رخ کیا جائے تو بقیہ ازوج مطہرات نے اس میں شرکت سے انکار کردیا اور کہنے لگیں کہ ہم مدینہ کے علاوہ کہیں نہیں جائیں گی۔[8] گویاکہ دمِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بدلہ کے مطالبہ کے لیے نکلنے میں انھیں کوئی اختلاف نہ تھا، اگر اختلاف ہوا تو مدینہ
Flag Counter