Maktaba Wahhabi

722 - 1201
ان چاروں میں سرفہرست تھے۔[1] بہرحال جب زبیر رضی اللہ عنہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ قلعہ بابلیون کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں، آپ بلاتاخیر اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور قلعہ کے چاروں طرف کھودی ہوئی خندق کا جائزہ لیا، پھر لوگوں کو خندق کے چاروں طرف پھیلا دیا، اس طرح قلعہ کے محاصرہ کی مدت طویل ہوتے ہوئے سات ماہ تک پہنچ گئی، اس وقت زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ یہاں طاعون کی وبا پھیل گئی ہے۔ آپ نے جواب دیا: گھبرانے کی بات نہیں، ہم طعن (دشمن کو زخم لگانے) اور طاعون ہی کے لیے آئے ہیں۔[2] اس طرح جب آپ نے دیکھا کہ فتح کے لیے ایک طویل مدت لگ سکتی ہے اور نتیجہ میں تاخیر ہے تو آپ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا: میں خود کو اللہ کے حوالہ کرتا ہوں، امید کہ اللہ تعالیٰ اسی کو مسلمانوں کی فتح وکامیابی کا سبب بنا دے، پھر آپ نے سواق الحمام کی طرف سے قلعہ بابلیون سے ایک سیڑھی لگائی اور اس کے ذریعہ سے اوپر چڑھ گئے، اُدھر آپ مجاہدین کو یہ حکم دے چکے تھے کہ جب میں اوپر چڑھ کر اللہ اکبر کہوں گا تو تم سب نعرۂ تکبیر بلند کرنا۔ چنانچہ آپ قلعہ کی بلندی پر چڑھ گئے تب دشمن کو احساس ہوا، دیکھا تو آپ قلعہ کی چوٹی پر تلوار لیے ہوئے اللہ اکبر کا نعرہ لگا رہے ہیں، پھر بقیہ مجاہدین بھی ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہوئے سیڑھی پر چڑھنے لگے، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ڈرے کہ کہیں سیڑھی ٹوٹ نہ جائے، اس لیے آپ نے لوگوں کو منع کیا اورجب رومیوں نے دیکھا کہ عرب مجاہدین قلعہ پر فتح پانے میں کامیاب ہو رہے ہیں تو وہ پیچھے کھسکنے لگے اور قلعہ بابلیون نے اپنا دروازہ خود ہی مسلمانوں کے لیے کھول دیا۔اس قلعہ کا دروزہ کھلنے کے بعد فتح مصر کے لیے لڑی جانے والی فیصلہ کن جنگ کا یہیں خاتمہ ہوگیا، اور زبیر بن عوام کی بے مثال شجاعت، راست طور سے شاہ مصرمقوقس پر مسلمانوں کی فتح یابی کا سبب بن گئی۔[3] 8۔ سیّدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی غیرت: اسماء بنت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ مجھ سے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے جب شادی کی تو ان کے پاس نہ کوئی مال تھا، نہ ملکیت تھی، نہ غلام تھے، صرف ایک گھوڑاتھا میں اس گھوڑے کے لیے چارہ کاٹتی، اس کی ضروریات دیکھتی اور اس کی دیکھ بھال کرتی، میں اس کے لیے گٹھلیاں کوٹتی، اسے چارہ دیتی اور پانی پلاتی۔ اور اگر اس کا چرس (بیل کے کھال سے بناہوا بڑاڈول) پھٹ جاتا تو اسے سِل دیتی، خود ہی گھر کا آٹا گوندھتی، البتہ مجھے اچھی طرح روٹی پکانا نہیں آتا تھا، انصار کے گھرانوں کی کچھ پڑوسنیں روٹی پکانے میں میری مدد کردیتی تھیں، وہ بڑی باوفا عورتیں تھیں۔ بہرحال میں گٹھلیوں کو زبیر کی کھیتی سے جو کہ تقریباً دو میل پر واقع تھی، لاتی تھی، یہ کھیتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دی تھی۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں ان گٹھلیوں کو سر پر لادے آرہی تھی کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
Flag Counter