ایک دوسرے کی تکفیر کرتے نظر آتے ہیں، یہ اختلافات ان بے شمار متناقض اور متضاد روایات کے علاوہ ہیں جو بنیادی طور سے ان کے عقائد و مذہب میں پائے جاتے ہیں۔ پس مذہب تشیع میں خام خیالی پر مبنی ’’عصمت ائمہ‘‘ کا عقیدہ اپنے معتقدین کو اپنے بارے میں اختلافات سے نہ بچا سکا اور ان پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ جو اس با ت کی دلیل ہے کہ یہ عقیدہ بے اصل و بے بنیاد ہے۔ یہاں ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ عقیدۂ عصمت ائمہ کے اثرات آج کے اس دور میں نہیں رہے، اس لیے کہ ائمہ کا عملی وجود 260ھ میں ختم ہوگیا، اب تو صرف امام غائب و موعود کا انتظار ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذہب تشیع کے حاملین میں اس عقیدہ کے اثرات آج بھی نظر آتے ہیں جس کے چند قابل دید پہلو یہ ہیں: ٭ بارہ اماموں سے ماثورات و منقولات پر اسی طرح پابندی و یقین کے ساتھ عمل کہ جس طرح سارے مسلمان قرآن اور سنت پر عمل کرتے ہیں۔ ٭ ائمہ کی قبروں کے بارے میں ان کا مبالغہ آمیز عقیدہ، چنانچہ عصمت ائمہ کے عقیدہ میں یہ لوگ جہاں غلو کی اس حد تک پہنچے کہ انھیں صفات الٰہیہ سے موصوف کیا، وہیں یہ غلو پرستی ان کی قبروں اور مزارات تک اس حد کو پہنچ گئی کہ ان قبروں کا طواف کیا جانے لگا اور قبر والے استمداد کے لیے پکارے جانے لگے۔ ٭ شیعہ مجتہد عالم بھی کسی حد تک عصمت سے مربوط ہوگیا، بایں طور کہ جو شخص اس کی کسی بات کی تردید کرے وہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی اللہ کی تردید کرے، گویا یہ تردید و تنقید شرک باللہ کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہے، جب کہ اس نظریہ کی خطرناکی ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ ٭ اس فاسد اور گھناؤنے عقیدہ کو امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اور آپ کی اولاد و احفاد جیسی پاکیزہ شخصیات سے جوڑنا کہ جن کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔[1] اثنا عشری شیعہ امامیہ، اور امامت کی صحت کے لیے تنصیص و تخصیص کی شرط روافض شیعہ کا عقیدہ ہے کہ امامت کا منصب نبوت کے منصب کی طرح ہے، چنانچہ نبو ت کی طرح امامت بھی اللہ کی طرف سے اس کے رسول کی زبانی تنصیص و تخصیص کے بغیر صحیح نہیں ہوسکتی۔ یہ اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر اس کا کرم ہے اسے یہ ہرگز پسند نہیں کہ کوئی بھی زمانہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ امام سے خالی رہے اور کسی بھی انسان کو بلکہ خود مستحق امامت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کو امام منتخب و مقرر کرے، بلکہ یہ صرف اللہ کا حق ہے۔ روافض شیعہ نے اس سلسلہ میں دسیوں روایات اپنے ائمہ کی طرف منسوب کی ہیں، انھیں میں سے ایک امام محمد الباقر کی طرف منسوب ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ معاملہ ہمارے اختیار میں ہے کہ جہاں چاہیں اسے استعمال کریں؟ نہیں ہرگز نہیں، اللہ کی قسم یہ تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک عہد ہے، جو یکے بعد دیگرے نامزد مستحق امامت کو آخر تک پہنچتا رہے گا۔‘‘[2] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |