Maktaba Wahhabi

738 - 1201
فرمایا: تجھ سے پہلے کسی نے اب تک اس رشتہ کا واسطہ دے کر سوال نہیں کیاتھا، میری ایک زمین ہے، جس کا عثمان مجھے تین لاکھ دے رہے ہیں، تم اسے لے لو، اور اگر تم کہو تو میں اسے عثمان کے ہاتھوں فروخت کرکے اس کی نقد قیمت تمھیں دے دوں، اس نے کہا: نقد ہی دے دیجیے، چنانچہ آپ نے ایسے ہی کیا۔[1] آپ بنوتیم کے کسی فرد کو تنگ دست نہیں دیکھنا چاہتے تھے، اگر کوئی ایسا ہوتا تو آپ اس کی بھرپور مدد کرتے، اس کا قرض کو ادا کردیتے، آپ ہر سال عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس دس ہزار برائے اخراجات بھیجا کرتے تھے۔[2] آپ طلحۃ الخیر(خیر کے طلحہ) طلحۃ الفیاض (فیاض طلحہ) طلحۃ الجود (جود و سخا کے طلحہ) کے لقب سے ملقب تھے۔[3] آپ کی اسی سخاوت اور کارخیر میں دریادلی کی وجہ ہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام فیاض یعنی بہت بڑا سخی رکھ دیا تھا۔ ابوعبداللہ الحاکم اپنی سند سے موسیٰ بن طلحہ سے روایت کرتے ہیں کہ طلحہ رضی اللہ عنہ نے غزوۂ ذی قرد کے موقع پر کئی اونٹوں کو ذبح کیا اورایک کنواں کھودا، پھر سب کو کھلا پلا کر سیراب کیا، اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَا طَلْحَۃُ الْفَیَّاضُ)) اے طلحہ فیاض! پھر آپ طلحہ فیاض کہے جانے لگے۔[4] 8۔آپ کے اقوال زریں: آپ کا قول ہے کہ آدمی کے لیے سب سے کم عیب کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔[5] فرمایا: پوشاک، اظہار نعمت کی علامت ہے، اور خادم پر احسان کرنا دشمن کے لیے تکلیف دہ ہے۔[6] آپ مردم شناس تھے، لوگوں کے بارے میں آپ کی نگاہیں باریکی سے اور صحیح تجزیہ کرتی تھیں۔ صلہ رحمی کے بارے میں آپ کسی بخیل سے مشورہ نہ لیتے تھے، اور نہ ہی جنگ کے بارے میں کسی بزدل سے۔[7] 9۔آپ کی شہادت: جنگ جمل کے موقع پر جب آپ میدان معرکہ میں حاضر ہوئے اور علی رضی اللہ عنہ سے آپ کی ملاقات ہوئی تو انھوں نے آپ کو معرکہ سے کنارا کشی کی نصیحت کی، چنانچہ آپ ایک صف میں کنارے پر جاکھڑے ہوئے، تب اچانک ایک زہرآلود تیر آپ کے گھٹنوں میں اور ایک روایت کے مطابق گردن میں آلگا، پہلی ہی روایت زیادہ مشہور ہے۔ وہ تیر آپ کے گھٹنوں سمیت گھوڑے کے پہلو میں جا دھنسا، گھوڑا بے لگام ہوگیا اور بالکل قریب تھاکہ آپ کو اپنی پشت سے گرا دے۔ آپ کہنے لگے: اے اللہ کے بندو! میری طرف آؤ، آپ کا ایک غلام یہ آوازسن کر آپ کے پاس آیا اورآپ کے پیچھے سوار ہوگیا، وہ گھوڑا کو ہنکا کر بصرہ لایا اور وہاں ایک مکان میں پہنچ کر آپ کی وفات ہوگئی۔ اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آپ معرکہ ہی میں شہید ہوئے تھے۔ اختتام جنگ کے بعد علی رضی اللہ عنہ جب
Flag Counter