عباس رضی اللہ عنہما کو بصرہ کا گورنر بنایا اور وہاں کے خراج وبیت المال کا ذمہ دار زیاد کو مقرر کیا اور اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو زیاد کی بات سننے اور اس پر عمل کرنے کا پابند کردیا۔[1] یہ ہے حکومتی گرفت کی بالادستی کا ایک بے نظیر نمونہ۔ پس ان دونوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا مفہوم یہ ہوا کہ بحیثیت گورنر ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اطاعت زیاد پر لازم اور بحیثیت ذمہ دار بیت المال زیاد کی اطاعت ابن عباس رضی اللہ عنہما پر لازم قرار دی گئی۔ رہے عدالتی معاملات، تو اس منصب کے لیے علی رضی اللہ عنہ نے ابوالاسود الدولی کوذمہ دار بنایا تھا۔[2] امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ نے مالک بن اشتر کے نام جو حکومتی فرمان صادر کیا تھا، اس کی روشنی میں ہم قدرے تفصیل سے گورنران کے اختیارات معلوم کرسکتے ہیں، اس فرمان کا ایک حصہ یہ ہے: 1۔ وزراء کا تقرر: تمھارے سب سے برے وزراء وہ ہیں جو تم سے پہلے کے بروں کے وزیر اور گناہوں میں ان کے شریک رہ چکے ہیں، اگر تمھیں ایسے بہتر متبادل مل رہے ہوں جو کارکردگی اور راے میں ان وزراء کے ہم مثل ہوں، لیکن ان کی طرح گناہوں کی گرانباریوں میں دبے ہوئے نہ ہوں، نہ ہی کسی ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کی ہو اور نہ ہی کسی گناہ گار کا اس کے گناہ میں ہاتھ بٹایا ہو، تو ایسے لوگوں کو وزیر بناؤ، ان کا بوجھ تم پر ہلکا ہوگا اور یہ تمھارے بہترین معاون ثابت ہوں گے، تمھاری طرف محبت سے جھکنے والے ہوں گے اور تمھارے غیروں سے کم ربط و تعلق رکھنے والے ہوں گے۔ مذکورہ حکومتی فرمان میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے نصیحتوں کی شکل میں چند حقائق اور اہم نقاط کی طرف اشا رہ کیا ہے: ٭ وزارء کا تقرر گورنر کے اختیارات میں داخل ہے۔ ٭ وزراء کے انتخاب کے وقت کن کن شرائط کا خیال رکھا جائے؟ ٭ وزراء کی ذمہ داریاں ۔ ایک گورنر کے ماتحت کتنے وزراء ہوں؟ اس سلسلہ میں علی رضی اللہ عنہ نے کوئی تعداد نہیں بتائی، بلکہ صیغہ جمع کے ساتھ وزراء کا ذکر کرکے چھوڑ دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ چیز گورنروں کی اپنی ضرورت پر منحصر ہے کہ انھیں کتنے معاونین کی ضرورت ہے، اس لیے کہ وزیر کا کام گورنر کی مدد کرناہے۔ وزراء کی تقرری کے لیے بھی امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے گورنروں کو چند شرائط کا پابند کیا تھا، ان میں سے ایک شرط یہ تھی کہ وہ برے گورنروں کا سابق وزیر نہ رہا ہو اور یہ کہ گورنر اپنے تمام وزراء میں سے اپنا ایک خاص وزیر منتخب کرلے، جو ریاستی امور میں اس کا معاون اور نائب بن سکے۔[3] اس لیے کہ امیر المومنین فرماتے ہیں: پھر ان وزراء میں ایسے وزیر کو اپنے نزدیک ترجیح دو جو حق و صداقت کی کڑوی باتیں برملا کہنے والا ہو اور جن چیزوں کو اللہ اپنے مخصوص بندوں کے لیے ناپسند کرتا |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |