Maktaba Wahhabi

751 - 1201
طرح کبار تابعین میں سے مسروق بن اجدع رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں کو سمجھایا اور ڈرایا، اور جب وہ نہ مانے تو آپ بھی لڑائی سے کنارا کش ہوگئے۔[1] ابومخنف رافضی اور نصر بن مزاحم کی روایات میں مراسلات سے متعلق جو تفصیلات مذکور ہیں، امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ان پر تنقید اور ان کی تنقیح کرتے ہوئے فرمایا ہے: سیرت نگاروں نے علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان اس موقع پر جو کچھ ہوا اس پر کافی طویل گفتگو کی ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ان کے اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان ایسی گفتگو اور مراسلت کی صحت پر شکوک و شبہات کے گرد و غبار ہیں اس لیے کہ اس میں دوران کلام یہ احساس اجاگر ہوتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے باپ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے بارے میں گستاخانہ نظریات رکھتے تھے اور یہ سوچتے تھے کہ معاویہ اور ابوسفیان اگرچہ اسلام لے آئے تھے، لیکن وہ اس کے لیے صاف دل نہ تھے، بلکہ بربنائے مجبوری مسلمان ہوئے تھے، نیز آپ نے یہاں تک کہا کہ میں نہیں کہتا کہ عثمان مظلوم قتل کیے گئے یا ظالم… میرے خیال میں علی رضی اللہ عنہ سے متعلق یہ بات قطعاً صحیح نہیں ہے۔[2] قاتلین عثمان سے متعلق علی رضی اللہ عنہ کا موقف بالکل واضح تھا، جیسا کہ میں نے اپنی کتاب ’’عثمان بن عفان -شخصیت اور کارنامے‘‘ اور اس کتاب میں بیان کردیا ہے۔ جنگ کا آغاز محرم کا مہینہ گزر جانے کے بعد حالات پھر ویسے ہی ہوگئے جیسے ذی الحجہ کے مہینہ میں تھے، یعنی چھوٹے چھوٹے فوجی دستوں کی کارروائی اور انفرادی مبارزت کا دور شروع ہوگیا، طرفین نے یہ انداز جنگ محض اس خطرہ کے پیش نظر اختیار کیا تھا کہ کہیں مکمل جنگ نہ شروع ہوجائے، اس طرح صفر کا پہلا ہفتہ گزر گیا، اس تاریخ تک طرفین کی طرف سے مذکورہ جنگی چالوں اور چھڑپوں کی تعداد ستر سے زیادہ ہوچکی تھی اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ تقریباً اس طرح کے نوے (90) واقعات پیش آچکے تھے۔[3] لیکن تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق وہ وقت آگیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر میں اعلان کردیا کہ کل بروز بدھ مکمل جنگ لڑی جائے گی اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی اس کی اطلاع دے دی۔[4] اس دن پوری رات لوگوں نے اپنے ہتھیاروں کو تیز اور درست کیا، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اسلحہ خانہ سے اسلحہ نکال کر ان لوگوں کو دینے لگے جن کے اسلحہ کی دھاریں کند ہوگئی تھیں، آپ لوگوں کو جنگ میں مردانہ وار لڑنے کی تلقین کر رہے تھے۔[5] اس طرح فریقین کے پورے لشکر نے پوری رات باہمی صلاح و مشاورت، قائدین کی تنظیم اور علم برداروں کی تعیین میں گزار دی۔
Flag Counter