Maktaba Wahhabi

127 - 263
وہ ابحاث جو صرف تفسیر جواہر القرآن میں مذکور ہیں: 1۔اللہ رب العزت کے لیے صفت علم کا ثبوت از الوانی رحمہ اللہ: سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 29 ’’وهو بكل شيئ عليم‘‘کی تشریح میں مولانا الوانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کائنات ارضی کو تمہارے لئے پیدا کیا تاکہ تم اس سے مادی فوائد حاصل کرو، اور اس میں غور وخوض کر کے خالق کی قدرت وصنعت کا اندازہ لگاؤ، زمین میں ہمارے صرف دنیوی فائدے ہی نہیں بلکہ اس میں دینی فائدے بھی ہیں اور سامانِ آخرت بھی۔ واما قوله لکم فهو یدل علی ان المذکور بعد قوله خلق لاجل اشفاعنا فی الدین والدنیا[1] ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاءِ[2] استوی کا صلہ جب الی ہو تو اس کے معنی قصد کرنے اور متوجہ ہونے کے ہیں۔ استوی الی ای اقبل[3]زمین پیدا کرنے کے بعد وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا۔ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ[4] تسویہ سے مراد یہ ہے کہ آسمانوں کو بالکل اور مکمل بنایا اور ان میں کسی قسم کی درز یا شکن باقی نہ رہنے دی۔ ومنعی تسویتهن تعدیل خلقهن واخلاءه من العوج والفطور واتمام خلقهن[5] وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ[6] جس طرح وہ تمام کائنات ارضی وسماوی کا خالق ہے اسی طرح وہ سارے عالم کے ذرہ ذرہ کو جانتا ہے اور زمین و آسمان کی کوئی چیز اس کے علم محیط سے باہر نہیں۔ اس آیت کی ابتداء یعنی هُوَ الَّذِىْ خَلَقَ میں مبتدا اور خبر ہر دو کے معرفہ ہونے کی وجہ سے حصر ہے پھر ثُمَّ اسْتَویٰ، خَلَقَ پر معطوف ہے اور وَهوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ،هُوَ الَّذِىْ خَلَقَ پر معطوف ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ جب کلام کی ابتداء میں حصر ہو تو اس کے باقی اجزاء میں بھی حصر ہوگا۔ تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ ہی زمین و آسمان کا خالق وکارساز ہے اور صرف اللہ ہی ہر چیز کا عالم ہے۔[7] تجزیہ: جب تم جانتے ہو کہ موت وحیات خدا کے قبضہ میں ہے، زمین و آسمان کا خالق بھی وہی ہے اور ہر ظاہر وچھپی ہوئی چیز
Flag Counter