1۔اسلام، آزمائش اور ہجرت: سیّدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بُصری کے ایک بازار میں گیا، میں نے وہاں ایک پادری کو اپنے گرجا گھر میں کہتے ہوئے سنا: اس سال یہاں آنے والوں سے پوچھو کیا یہاں کوئی اہل حرم میں سے ہے؟ طلحہ نے کہا: ہاں، میں ہوں، اس نے پوچھا: کیا اب تک احمد کا ظہور نہیں ہوا؟ میں نے کہا: کون احمد؟ اس نے کہا: ابن عبداللہ بن عبدالمطلب۔ یہ اسی کے ظہور کا مہینا ہے، وہ آخری نبی ہوگا، حرم سے اس کا ظہور ہوگا، کھجوروں کے باغات والی، سیاہ پتھروں اور شور والی زمین اس کی ہجرت گاہ ہوگی۔ خبردار! ہوشیار رہنا اس کی طرف تم سے کوئی سبقت نہ کرسکے۔ طلحہ کا بیان ہے کہ اس کی یہ بات میرے دل میں گھر کر گئی، میں تیزی کے ساتھ وہاں سے نکلا اور مکہ آپہنچا، میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا کوئی نیا واقعہ پیش آیا ہے؟ سب نے کہا: ہاں، امانت دار محمد بن عبداللہ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور ابوقحافہ کا بیٹا اس کے ساتھ ہے۔ طلحہ کہتے ہیں کہ میں وہاں سے چلا اور ابوبکر کے پاس پہنچا، ان سے پوچھا کیا آپ نے اس آدمی کی بات مان لی ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، جاؤ تم بھی ان سے ملو اور ان کی پیروی کرو، وہ حق اور خیر کی دعوت دیتے ہیں۔ طلحہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو راہب کی بات بتائی، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ طلحہ کو لے کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، وہاں طلحہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرلیا، پھر آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پادری کی بات بتلائی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بہت خوش ہوئے، ادھر جب ابوبکر اور طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہما اسلام لے آئے تو نوفل بن خویلد بن العدویہ نے دونوں کو پکڑا اور ایک رسی سے باندھ دیا، یہ سب کچھ ہوا، لیکن بنوتیم نے ان دونوں کا کوئی دفاع نہ کیا۔ نوفل شیر قریش کہا جاتا تھا، چونکہ طلحہ اور ابوبکر نے ایک ساتھ یہ مشقتیں برداشت کی تھیں اس لیے ان دونوں کو قرین یعنی جگری دوست کہا جاتا ہے۔[1] اس طرح طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے اللہ کے راستہ میں بہت ایذا رسانیوں کا سامنا کیا، مشرکین کی طرف سے بڑے مصائب جھیلے، غیر تو غیر خود اپنے قریبی رشتہ داروں کی طرف سے بہت تکالیف اٹھائیں، لیکن آپ نہایت خندہ پیشانی سے ان تکلیفات پر صبر کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ نے ہجرت کی اجازت دے دی، چنانچہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت مدینہ کے لیے اپنے سفر پرنکل چکے تھے اسی وقت ایک قافلہ کے ساتھ شام سے واپس آتے ہوئے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو شامی لباس پہنایا اور مکہ کے لیے چل پڑے، وہاں اپنی ضروریات کی تکمیل کرنے کے بعد چند ہی دنوں میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اہل و عیال کو لے کر مدینہ پہنچے، اس طرح آپ مہاجرین اوّلین میں سے تھے۔[2] جب مدینہ آئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہما کے درمیان مواخات قائم کرائی۔[3] بعض روایات میں ہے کہ ان کے اور کعب بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کے درمیان مواخات کرائی تھی۔[4] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |