Maktaba Wahhabi

252 - 263
پہنچا سکتا‘‘اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد بیا نکرتے ہوئے متقدمین علماءاسلام اور خصوصاً غیر مقلدین اور علماء دیوبند سب ہی نےبالذات کی قید لگائی ہے کہ حجر اسود بالذات نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتا‘جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں جو نفع رکھا ہے کہ وہ مسلمانوں کے حق میں حج کی گواہی دےگا وہ یہ نفع ضرور پہنچائے گا۔اسی اسلوب پر کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں ہے’’ قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللّٰهُ‘‘[1](اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم)آپ کہیے میں اپنی جان کے لیے(ازخود)نہ کسی نفع کا مالک ہوں اور نہ کسی نقصان کا‘سوا اس کے جو اللہ چاہیں)۔علماء اہلسنت یہاں بھی بالذات کی قید لگاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بذاتہ نفع وضرر نہیں پہنچاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو آپ میں نفع رکھا ہے وہ نفع آپ پہنچاتے ہیں کہ آپ کا کلمہ پڑھنے‘آپ کی تبلیغ اور آپ کی شفاعت سے ارب ہا انسانوں کو نفع پہنچے گا اور وہ سب آپ کی وجہ سے جنت میں جائیں گے۔یہ کوئی کم نفع ہے؟لیکن علماء نجد اور علماء دیوبند اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بالذات کی قید لگانا اور ذاتی اور عطائی اختیارات کی تقسیم خالص مشرکانہ عقیدہ ہے اور یہ قیدخانہ زاد اور سینہ زاد ہے قرآن مجید نے آپ کی ذات سے مطلقاً نفع رسانی کی نفی کر دی ہے اور ذاتی اور عطائی کی تقسیم اہل بدعت کی ایجاد اور اختراع ہے وغیرہ وغیرہ ہم کہتے ہیں کہ آپ ایک پتھر(حجر اسود)کی نفع رسانی ثابت کرنے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول’’لا تنفع‘‘میں بالذات کی قید لگائیں تو کوئی حرج نہیں ہے اوراگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفع رسانی ثابت کرنے کے لیے لا املک لنفسی میں بالذات کی قید لگائیں تو مجرم قرار پائیں!یہ کہاں کا انصاف ہے۔ مزید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نفع رسانی سے کون انکار کر سکتا ہے کہ انسان محمد الرسول اللہ کہے تو جنت کا مستحق ہو جاتا ہے بلکہ اس وقت تک کوئی شخص جنت کا مستحق نہیں ہوگا جب تک وہ محمد رسول اللہ نہیں گہے گا‘اللہ اکبر!جن کے نام کی نفع رسانی کا یہ مقام ہے ان کی ذات کی نفع رسانی کا کیا عالم ہوگا!اور میں تو یہ کہتا ہوں کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفع رسانی کا انکار کرتا ہے وہ آپ کا نام نہ لے اور ہمیں جنت میں جا کر دکھلادے۔[2] تجزیہ: علامہ سعیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بالذات نفع ونقصان نہیں دے سکتے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ خود بھی اصل میں نفی ہی کر رہے ہیں کیونکہ جب بالذات نفع ونقصان نہیں دے سکتے تو بالواسطہ نفع ونقصان دے سکتے ہیں تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو خود فضل الٰہی کے محتاج ہیں تو جو خود محتاج ہو تو وہ کسی کو کیسے نفع ونقصان دے سکتا ہے اور جب اللہ کے حکم اور فضل کے تحت ہی نفع ونقصان دینا ہے تو وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا ہی نفع ونقصان دینا ہے نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ اور علامہ سعیدی رحمہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نفع رسانی میں جن آیات کو دلیل بنایا ہے ان کی حقیقت اور اصل مفہوم ملاحظہ ہو:
Flag Counter