Maktaba Wahhabi

185 - 1201
’’اچھے اچھے دلیر وحوصلہ مند بہادر جب بزدل ہوئے تو میں نے ٹکرلینے والے جانباز کا کردار نبھایا۔‘‘ وِ لِذَاکَ إِنِّيْ لَمْ أَزَلْ مُتَسَرِّ عاً قَبْلَ الْہَزَاہِزْ ’’اسی لیے میں ہمیشہ آفتوں بھری جنگ کی طرف پیش پیش رہتا ہوں۔ ‘‘ إِنَّ الشُّجَاعَۃَ فِی الفَتَی وَ الْجُوْدَ مِنْ خَیْرِ الْغَرَائِزْ ’’بلاشبہ ایک نوجوان میں شجاعت اور سخاوت اس کی سب سے عمدہ خصلت ہے۔‘‘ اور جب علی رضی اللہ عنہ مقابلے میں اترے تو کہا: لَا تَعْجَلَنَّ فَقَدْ أَتَاکَ مُجِیْبُ صَوْتِکَ غَیْرُ حَاجِزْ ’’جلدی نہ کرو (گھبراؤ نہیں) تمھاری للکار کا جواب دینے والا سامنے حاضر ہے۔ ‘‘ فِیْ نِیَّۃٍ وَ بَصِیْرَۃٍ وَالصِّدْقُ مُنْجِيْ کُلِّ فَائِزْ ’’مضبوط ارادہ اور پورے ہوش وحواس کے ساتھ اور صداقت ہی ہر کامیاب ہونے والے کے لیے، ذریعہ سے نجات ہے۔ ‘‘ إِنِّيْ لَأَرْجُو أَنْ اُقِیْمَ عَلَیْکَ نَائِحَۃَ الْجَنَائِزْ ’’مجھے امید ہے کہ میت پر بین کرنے والیوں کو تمھارے بھی قتل پر لا جمع کروں گا۔‘‘ مِنْ ضَرْبَۃٍ نَجْلَائَ یَبْقَیٰ ذِکْرُہَا عِنْدَ الْہَزَ اہِزْ ’’ایسی زبرد ست مار کے ذریعہ سے کہ جنگوں کے وقت اس کا تذکرہ ہوا کرے گا۔ ‘‘ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے عمرو بن ود کو قتل کردیا تو آپ نے یہ اشعار پڑھے: أعَلَیَّ تَقْتَحِمُ الْفَوَارِسُ ہٰکَذَا عَنِّی وَعَنْہُمْ أَخَّرُ وا أَصْحَابِیْ ’’کیا بہادر کہے جانے والے شہ سوار مجھ پر اس طرح دھا وا بولیں گے، جب کہ میرے دیگر ساتھیوں کو انھوں نے مجھ سے اور اپنے سے دور کھڑا کر رکھا ہے۔‘‘ اَلْیَوْمَ یَمْنَعُنِيْ الْفَرَارُ حَفِیْظَتِيْ وَمُصَمِّمٌ فِی الرَّأْسِ لَیْسَ بِنَابِي[1] ’’آج مجھے میری غیر ت اور ایک ہی وار میں سر کے اندر تک گھس جانے والی تلوار، بھاگنے سے روک رہی ہیں۔‘‘ پھر عمرو بن عبدود کے مارے جانے سے عکرمہ شکست کھا کر اور اپنا نیزہ چھوڑ کر بھاگ گیا، اس کے بارے میں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار کہے : فَرَّ وَ أَلْقَیٰ لَنَا رُمْحَہُ لَعَلَّکَ عِکْرَمُ لَمْ تَفْعَلِ ’’ہمارے لیے اپنا نیزہ ڈال کر وہ (عکرمہ) فرار ہوگیا، اے عکرمہ ! شاید تو نے ایسانہیں کیا ہوگا۔‘‘ وَوَلَّیْتَ تَعْدُوکَعَدْوِالظَّلِیْمِ مَا إِنْ یَحُوْرُ عَنِ الْمِعْدِلِ
Flag Counter