کی تعداد ستر (70) ہزار تھی، جس میں پچیس (25) ہزار اہل عراق کے اور پینتالیس (45) ہزار اہل شام کے تھے۔[1] اسی طرح امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ذکر کیا ہے کہ صفین میں مقتولین کی تعداد ستر ہزار یا اس سے زیادہ تک پہنچ گئی تھی۔[2] بلاشبہ یہ تعداد صحیح نہیں ہے، یہ ایک خیالی تعداد ہے، کیونکہ حقیقی لڑائی اور گروہوں کی شکل میں جنگی حملے تین دن چلتے رہے، جس میں جمعہ کی رات چھوڑ کر بقیہ راتوں میں لڑائی بند تھی، ایسی صورت میں کل لڑائی (30) گھنٹے ہوئی۔[3] یہ لڑائی کتنی ہی سخت اور ہولناک رہی ہو، لیکن قادسیہ کی سختی اور ہولناکی پر کسی صورت میں بھاری نہ تھی، جس میں شہداء کی کل تعداد صرف آٹھ ہزار پانچ سو (8500) تھی۔[4] نتیجتاً یہ بات عقلاً مشکل سی ہے کہ ہم بھاری بھرکم تعداد کو ذکر کرنے والی روایات کو قبول کرلیں۔ 12۔شہدائے صفین کا جائزہ اور ان پر دعائے رحمت: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ لڑائی ختم ہونے کے بعد مقتولین کا جائزہ لیتے تھے، آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے والا راوی کہتا ہے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’شہبائ‘‘ خچر پر سوار ہو کر مقتولین کے درمیان گھومتے ہوئے دیکھا،[5]اس وقت آپ کے ساتھ اشتر بھی تھا، آپ رضی اللہ عنہ ایک ایسے مقتول کے پاس سے گزرے جو شام کے مشہور عبادت گزاروں اور قاضیوں میں سے تھے، اشتر کہنے لگا اور دوسری روایت میں ہے کہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المومنین: کیا حابس[6] بھی ان (شامیوں) کے ساتھ تھے؟ میں تو انھیں مومن جانتا تھا؟ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ آج بھی مومن ہی ہیں۔ غالباً یہ مقتول وہی قاضی تھے جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تھے اور کہا تھا کہ اے امیر المومنین! میں ایک خواب دیکھ کر گھبرا گیا ہوں، آپ نے پوچھا: وہ خواب کیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے سورج اور چاند کو لڑتے ہوئے دیکھا اور ستارے نصف نصف دونوں کے ساتھ تھے، آپ نے پوچھا: تم ان دونوں میں کس کے ساتھ تھے؟ انھوں نے کہا: چاند کے ساتھ جب وہ سورج پر غالب آرہا تھا، عمر رضی اللہ عنہ فرمایا: اللہ کا ارشاد ہے: وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ ۖ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً (الاسرائ:12) ’’اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا، پھر ہم نے رات کی نشانی کو مٹادیا اور دن کی نشانی کو روشن بنایا۔‘‘ جاؤ، چلے جاؤ، اللہ کی قسم، آج کے بعد تم میرا کوئی کام نہ کرو گے۔ راوی کا بیان ہے کہ مجھے خبر ملی ہے کہ وہ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |