Maktaba Wahhabi

356 - 1201
اللہ کے لیے اور مومنوں کے لیے تواضع سے خالی نہ رہا۔[1] بہرحال علی رضی اللہ عنہ اس قرآنی تربیت اور نبوی رہنمائی سے اس درجہ فیض یاب ہوئے کہ آپ کی بے مثال شخصیت کے رگ و ریشے یہی صفت گردش کرنے لگی، اس سلسلہ کے چند مواقف کو یہاں ذکر کیا جارہا ہے۔ میں ہی وہ شخص ہوں جس نے دنیا کو ذلیل کیا: صالح بن ابوالاسود اس شخص سے روایت کرتے ہیں جس نے ان سے یہ واقعہ بیان کیا کہ اس نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا، آپ ایک گدھے پر سوار ہوئے اور دونوں پاؤں ایک طرف لٹکاکر بیٹھ گئے، پھر کہا: میں ہی وہ شخص ہوں جس نے دنیا کو ذلیل کیا۔[2] اس طرح علی رضی اللہ عنہ منصب خلافت پر فائز ہوتے ہوئے اپنی نفس کشی کرکے اور عوام الناس کے سامنے سرتاپا تواضع کی علامت بن کر خوشی محسوس کرتے ہیں، بے شک دنیاوی عہدہ اور مناصب بے وفا اور دھوکا باز ہیں، ان کی آزمائش مال کی آزمائش سے بالاتر ہے، کتنے ایسے عہدہ دار اور ذمہ دار ہیں جو عہدہ پانے سے پہلے نہایت متواضع تھے، لیکن جب کسی عہدہ پر فائز ہوئے اور رفتہ رفتہ ترقیاں ملتی گئیں تو دھیرے دھیرے خودسری نے ان کے دل و دماغ میں جگہ بنالی اور بالآخرایسا وقت آگیا کہ ان سے ملنا اور گفتگو کرنا سخت دشوار ہوگیا۔ لیکن اللہ کے پرہیزگار بندے اس کیفیت سے بالکل مختلف ہوتے ہیں، انھیں جوں جوں دنیوی عہدوں پر ترقی ملتی ہے ان میں تواضع اور خندہ پیشانی پروان چڑھتی ہے، انھیں خوشی کا احساس ہوتا ہے اور وہ تواضع کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں جو ان سے غرور، خودسری اور تکبر کو دور بھگاتی ہے۔[3] ابوالعیال[4] خود سامان اٹھانے کا زیادہ حق دار ہے: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے ایک درہم کی کھجوریں خریدیں اور اسے چادر میں رکھ کر لے چلے، لوگ کہنے لگے: اے امیر المومنین لائیے ہم لے چلیں، آپ نے فرمایا: نہیں۔ ابوالعیال اسے خود لے جانے کا زیادہ مستحق ہے۔[5] یہ واقعہ بھی آپ کی تواضع کی ایک تابندہ مثال ہے، آپ امیر المومنین ہیں اور بوڑھے بھی ہوچکے ہیں، اس کے باوجود کسی سے خدمت لینا روا نہیں سمجھتے اور تواضع کے باب میں خود کو مسلمانوں کے لیے قدوہ کے طور سے پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ آج کے دور میں اگر کسی حاکم یا بڑی شخصیت کا مالک اپنا سامان اٹھانے اور لانے لے جانے میں عیب محسوس کرے، تو اسے امیرالمومنین کا موقف یاد کرکے اس وسوسہ کو مٹا دینا چاہیے، اسی طرح اگر کوئی شخص کسی متواضع کے اس تواضع پر اعتراض کرے تو اسے روئے زمین کے سب سے بڑے امیر کی اقتداء کرتے ہوئے اس اعتراض کا دفاع کرنا چاہیے۔[6]
Flag Counter