Maktaba Wahhabi

229 - 1201
سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں علی رضی اللہ عنہ کا نماز پڑھنا اور ان کے ہدایا و تحائف قبول کرنا: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو صدق دل سے تسلیم کرتے تھے۔ معاملات ومسائل میں ان کے شریک کار ہوتے، ان کے ہدایا وتخائف قبول فرماتے، شکایات کو ان کے پاس لیجاتے اور ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے، آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سچی عقیدت رکھتے تھے، وہ جسے ناپسند کرتے یہ بھی اسے ناپسند کرتے تھے۔[1] اس حقیقت کا اعتراف یعقوبی جیسے متعصب شیعہ مؤرخ نے بھی کیا ہے، جو کہ خلفائے راشدین کا دیگر اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تابعین وتبع تابعین وغیرہ کا ایک بڑا حریف ہے، چنانچہ خلافت صدیقی کے تذکرہ میں لکھتا ہے: ’’جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رومیوں سے محاذ آرائی کا ارادہ کیا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں مشورہ کیا، لیکن وہ لوگ آگے پیچھے ہونے لگے، پھر انھوں نے علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا، آپ نے مشورہ دیا کہ جنگ لڑی جائے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا اگر میں یہ اقدام کردوں تو کامیابی کی امید ہے؟ علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: آپ کو خیر کی مبارکباد ہے، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا، پھر خطبہ دیا اور سب کو حکم دیا کہ رومیوں سے جنگ لڑنے کے لیے تیاری کریں۔‘‘ دوسری راویت میں ہے کہ آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’کیسے اور کس وجہ سے آپ خیر کی مبارکباد دے رہے ہیں؟‘‘ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’اس مبارکباد کی اساس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دیتے ہوئے سنا تھا‘‘ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابو الحسن، اللہ آپ کو شادماں رکھے! تم نے مجھے یہ سنا کر بہت خوش کردیا۔ یعقوبی آگے لکھتا ہے: ’’ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی خلافت میں جن لوگوں سے معاملہ فہمی میں تعاون ومشورہ لیتے تھے ان میں علی بن ابی طالب، عمر بن خطاب، معاذبن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم پیش پیش تھے۔‘‘ [2] دیگر بزرگ صحابہ سے پہلے علی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ باہم خوشگوار میل ملاپ رکھتے تھے اور علی رضی اللہ عنہ کو مشورہ اور قضاء وغیرہ میں پیش پیش رکھتے۔[3] چنانچہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ تحریر بھیجی کہ عرب کے ایک علاقہ میں انھیں ایک ایسا آدمی ملا ہے جو عورتوں کی طرح نکاح کرتا ہے۔ (یعنی ہم جنس پرستی کرتا ہے) تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ لیا، ان میں علی رضی اللہ عنہ بھی تھے، آپ کا مشورہ یہ تھا کہ یہ ایسا گناہ ہے جسے روئے زمین پر ایک امت (قوم لوط) کے علاوہ کسی نے نہیں کیا اور اللہ نے اسے جو سزا دی وہ آپ سب لوگ جانتے ہو، میری رائے ہے کہ اسے آگ میں جلا دیا جائے، پھر تمام صحابہ اسی رائے پر متفق ہوگئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے آگ میں جلانے کا حکم دے دیا۔ [4]
Flag Counter