Maktaba Wahhabi

229 - 263
نہ پہنچنے دیتا‘بھلائی سے مراد راحتیں اور کامیابیاں اور دشمنوں پر غلبہ ہے اور برائیوں سے مراد تنگی اور تکلیف اور دشمنوں کا غالب آنا ہے‘یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھلائی سے مراد سرکشوں کا مطیع اور نافرمانوں کا فرمانبردار اور کافروں کا مومن کر لینا ہو‘اور برائی سے مراد بدبخت لوگوں کا باوجوددعوت کے محروم رہ جانا ہو‘لہٰذا حاصل کلام یہ ہو گا کہ اگر میں نفع اور ضرر کا ذاتی اختیار رکھتا تو اے منافقین وکافرین تم سب کو مومن کر ڈالتا اور تمہاری کفری حالت دیکھنے کی تکلیف مجھے نہ پہنچتی۔[1] رسول اللہ ‎ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہنے اور آپ کی طرف علم غیب کی نسبت کرنے میں علماء دیوبند کا نظریہ: مفتی محمد شفیع دیوبندی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اس کا اعلان کر دیں کہ میں اپنے نفس کے لیے بھی نفع ونقصان کا مالک نہیں‘دوسروں کے نفع نقصان کا تو کیا ذکر ہے۔ اسی طرح یہ بھی اعلان کر دیں کہ میں عالم الغیب نہیں ہوں کہ ہر چیز کا علم ہونا میرے لیے ضروری ہو اور اگر مجھے علم غیب ہوتا تو میں ہر نفع کی چیز کو ضرور حاصل کرلیا کرتا اور کوئی نفع میرے ہاتھ سے فوت نہ ہوتا۔اور ہر نقصان کی چیز سے ہمیشہ محفوظ ہی رہتا اور کبھی کوئی نقصان مجھے نہ پہنچتا۔حالانکہ یہ دونوں باتیں نہیں ہیں‘بہت سے کام ایسے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حاصل کرنا چاہا مگر حاصل نہیں ہوئے اور بہت سے تکلیفیں اور مضرتیں ایسی ہیں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بچنے کا ارادہ کیا مگر وہ مضرت وتکلیف پہنچ گئی۔غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر آپ صحابہ کرام کے ساتھ احرام باندھ کر عمرہ کا ارادہ کر کے حدود حرم تک پہنچ گئے مگر حرم میں داخلہ اور عمرہ کی ادائیگی اس وقت نہ ہو سکی تو سب کو احرام کھول کر واپس ہونا پڑا۔ اسی طرح غزوۂ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زخم پہنچا اور مسلمانوں کو عارضی شکست ہوئی‘اسی طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں معروف ومشہور ہیں۔اور شاید ایسے واقعات کے ظاہر کرنے کا مقصد ہی یہ ہو کہ لوگوں پر عملاً یہ بات واضح کر دی جائے کہ انبیاءعلیہم السلام اگرچہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مقبول اور افضل خلائق ہیں مگر پھر بھی وہ خدائی علم وقدرت کے مالک نہیں تاکہ لوگ اس غلط فہمی کے شکار نہ ہو جائیں جس میں عیسائی اور نصرانی مبتلا ہوگئے کہ اپنے رسول کو خدائی صفات کا مالک سمجھ بیٹھے اور اس طرح شرک میں مبتلا ہوگئے۔ اس آیت نے بھی یہ واضح کر دیا کہ انبیاء علیہم السلام نہ قادر مطلق ہوتے ہیں نہ عالم الغیب بلکہ ان کو علم وقدرت کا اتنا ہی حصہ جاصل ہوتا ہے جتنا من جانب اللہ ان کو دے دیا جائے۔ ہاں اس میں شک وشبہ نہیں کہ جو حصہ علم کا ان کو عطاء ہوتا ہے وہ ساری مخلوقات سے بڑھا ہوا ہوتا ہے‘خصوصاً ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اولین وآخرین کا علم عطافرمایا گیا تھا۔یعنی تمام انبیاء علیہم السلام کو جتنا علم دیا گیا تھا وہ سب اور اس سے بھی زیادہ
Flag Counter