جائے، جنھوں نے لڑائی میں شرکت کی ان کے سامنے دلیل واضح تھی اور وہ دلیل یہ تھی کہ باغی گروہ سے قتال کا حکم ہے اور ہمارے پاس باغیوں سے قتال کرنے کی طاقت ہے۔ جب کہ شرکت نہ کرنے والوں کے سامنے یہ بات واضح نہ تھی کہ دونوں میں سے کون باغی گروہ ہے، یا یہ بات واضح تھی لیکن ان میں اس گروہ سے قتال کرنے کی طاقت نہ تھی۔ چنانچہ خزیمہ بن ثابت کے سامنے یہ بات واضح نہ تھی اسی لیے وہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑائی میں شرکت نہیں کررہے تھے اور جب عمار رضی اللہ عنہ قتل کردیے گئے تب انھوں نے لڑائی میں شرکت کی، اور یہ حدیث بیان کی : ((تَقْتُلُ عَمَّارًا الفئۃُ البَاغِیۃُ))[1]’’عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘ ٭ جصاص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ سعد، محمد بن مسلمہ، اسامہ بن زید اور ابن عمر رضی اللہ عنہم جیسے صحابہ کی ایک جماعت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینے سے پیچھے کیوں رہی، تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ وہ اس لیے پیچھے نہ رہی کہ باغی گروہ سے قتال کرنے کو جائز نہ سمجھتے تھے، بلکہ انھوں نے سوچا کہ امیر المومنین اپنی ضرورت بھر کے لیے اپنے ساتھیوں کو کافی سمجھ رہے ہیں اور ان کو ہماری کوئی خاص ضرورت نہیں ہے، اس لیے اگر ہم اس میں نہ بھی شریک ہوں توکوئی حرج نہیں ہے، لہٰذا وہ لوگ شریک نہ ہوئے۔ بہرحال ان لوگوں کی عدم مشارکت کوئی قابل تنقید عمل نہیں ہے، بلکہ یہ جائز ہے۔ خوارج کے خلاف جنگ جب لڑی گئی تب بھی کچھ صحابہ اس میں شرکت کرنے سے پیچھے تھے، تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ لوگ خوارج کے خلاف جنگ کو واجب نہیں سمجھتے تھے؟ نہیں ایسی بات ہرگز نہیں۔ سچ یہ ہے کہ جب انھوں نے دیکھا کہ خوارج کے خلاف جنگ میں شرکت کرنے والے لوگ ان کے لیے کافی ہیں تو خود شرکت نہیں کی۔[2] حالات کی بحالی تک تنفیذ قصاص کو مؤخر کرنے والے علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ہم خیال لوگوں کا موقف: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اس بات کے منتظر تھے کہ پہلے حالات معمول پر آجائیں پھر قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں غور کیا جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ جب طلحہ، زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے حامیوں نے قاتلین عثمان پر حد قصاص کے نفاذ کا مطالبہ کیا توآپ نے ان سے یہ کہتے ہوئے معذرت کی کہ’’وہ بہت زیادہ ہیں، اوران کی قوت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘‘ آپ نے ان سے اس وقت تک صبر کرنے اور خاموش رہنے کی درخواست کی جب تک کہ شورو ہنگامہ ختم نہ ہوجائے اور حالات معمول پر نہ آجائیں، اس لیے کہ کسی نتیجہ خیز اور سود مند اقدام کے لیے حالات سازگار نہ تھے اور آپ اشارہ دے رہے تھے کہ دو برائیوں میں سے کمتر کو اختیار کرنا بہتر ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’میں تمھیں قاتلین عثمان کو مہلت دینے کی جو بات کہتا ہوں، وہ اس برائی سے کہیں بہترہے جو مسلمانوں کی باہمی خون ریزی یا اختلاف کی شکل میں ظاہر ہو۔‘‘[3] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے خیال میں مصلحت کا تقاضا یہ تھا کہ قصاص کو مؤخر کیا جائے، نہ یہ کہ اسے پس پشت |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |