Maktaba Wahhabi

493 - 1201
از ضرورت مال سے ہی جزیہ لینا۔[1] حدود 1۔ مرتد کی سزا: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مرتد سے تین مرتبہ توبہ کرائی جائے گی، اگر توبہ کرلے توبہتر، ورنہ قتل کردیا جائے گا۔[2] اس کے قتل کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی یہ حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہٗ فَاقْتُلُوْہٗ۔))[3]… ’’جس نے اپنا دین (اسلام) بدل دیا ہو اسے قتل کردو۔‘‘ اور توبہ کرانے کی دلیل جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد ہوجانے والے ایک آدمی سے چار مرتبہ توبہ کروائی۔[4] اور زندیق یعنی اسلام کو ظاہر کرنے والے اور کفر کو چھپانے والے کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کے دو اقوال ہیں: الف: زندیق اور مرتد کی توبہ کرانے میں نوعیت کا کوئی اختلاف نہیں۔[5] محمد بن ابوبکر نے علی رضی اللہ عنہ کو بذریعہ خط دو مسلمانوں کے بارے میں اطلاع دی کہ وہ زندیق ہوگئے ہیں،آپ نے جواب تحریر کیا کہ اگر وہ توبہ کرلیتے ہیں تو بہتر ہے ورنہ دونوں کی گردن مار دو۔[6] ب: مرتد سے توبہ کرائی جائے اور زندیق سے توبہ نہ کرائی جائے گی۔ اثرم نے اپنی سند سے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آپ کے پاس ایک عربی النسل آدمی پکڑکر لایا گیا جو نصرانی ہوگیا تھا، آپ نے اس سے توبہ کرائی، اس نے توبہ کرنے سے انکار کیا تو آپ نے اسے قتل کردیا۔ پھر ایک جماعت لائی گئی، اس میں سب کے سب نماز پڑھتے تھے، لیکن زندیق ہوچکے تھے اور ان کی زندیقیت عادل گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوچکی تھی، ان سب نے زندیقیت سے انکار کیا اور کہا ہم تو صرف اسلام ہی کے ماننے والے ہیں، لیکن آپ نے انھیں قتل کردیا، اور توبہ نہیں کرایا، پھر فرمایا: کیا جانتے ہو میں نے کیوں نصرانی سے توبہ کرائی؟ اس لیے توبہ کرائی تھی کہ اس نے اپنا دین (نصرانیت) ظاہر کردیا تھا، رہے یہ زندیق لوگ جن کی زندیقیت پر دلیل موجود تھی تو میں نے انھیں اس لیے قتل کیا کہ انھوں نے انکار کیا، حالانکہ ان کے خلاف دلیل قائم ہوچکی ہے۔[7] اسی طرح اگر عورت مرتد ہوتی ہے تو اس کے بارے میں بھی آپ کے دو اقوال ہیں: الف: مرد ہو یا عورت دونوں کے لیے قتل کا حکم یکساں ہے۔ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حسن، زہری، نخعی، مکحول، حماد، مالک، لیث، اوزاعی، شافعی اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی مسلک ہے۔[8]
Flag Counter