سبا،اور عثمان بن عفان کی زندگی پر روشنی ڈالوں گا، کیونکہ عثما ن رضی اللہ عنہ کی شہادت نے پورے عالم اسلام کو ہلاکر رکھ دیا تھا اور آج تک رونما ہونے والے بہت سے حادثات میں اس کا اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ 1۔ شورش کے آغاز میں علی رضی اللہ عنہ کا موقف: سیّدناعلی رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح اپنے معروف ومعہود طرز عمل پر قائم رہے۔ یعنی سمع و اطاعت کا مظاہرہ کیا، مشورہ اور خیر خواہی کو مقدم رکھا، آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ کی اطاعت، اور ان کے حکم کی بصدشوق پابندی کا اظہار نہایت عمدہ الفاظ میں کیا اگرچہ انھیں بجالانا گراں ہی کیوں نہ ہو: ’’ اگرعثمان رضی اللہ عنہ چشمہ صرار تک جانے کو کہیں تو میں اسے سننے اور ماننے کے لیے تیار ہوں۔‘‘[1] اور عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے تقریباً ڈیڑھ مہینا قبل جب شرپسندوں کاگروہ ذو المروہ پہنچا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے شخص کو جس کا نام روایات میں مذکورنہیں ہے، ان کے پاس بھیجا، علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اللہ کی کتاب کے حوالہ سے فیصلہ ہوگا اور تمھاری ناراضی کے اسباب پر غو ر کیا جائے گا۔ اس پر انھوں نے اپنی موافقت کا اظہار کیا۔[2] اور ایک روایت میں ہے کہ دو، تین مرتبہ علی رضی اللہ عنہ اور ان کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی، پھر سب کہنے لگے، یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی ہیں، اور امیرالمومنین عثمان رضی اللہ عنہ کے قاصد بن کرآئے ہیں، اللہ کی کتاب کا حوالہ دیتے ہیں، ان کی باتیں مان لو پھر انھوں نے ان کی باتیں مان لیں۔[3] چنانچہ وہ لوگ اپنے پانچ مطالبات پر صلح کرنے کے لیے آمادہ ہوئے: 1: جوملک بدر کردیے گئے ہیں انھیں واپس لایا جائے۔ 2: جنھیں سرکاری خزانہ سے کوئی عطیہ نہیں دیا گیا ہے، انھیں عطیہ دیا جائے۔ 3: اور مال فے کو ان کے مستحقین تک پورا پورا پہنچایا جائے۔ 4: وظائف کی تقسیم میں عدل وانصاف سے کام لیا جائے۔ 5: اور امانت دار وطاقتور لوگوں کو ریاستوں کا گورنر مقرر کیا جائے۔ ان مطالبات کو کتابی شکل میں تحریر کرنے کے بعد یہ بھی لکھا کہ ابن عامر رضی اللہ عنہ کو دوبارہ بصرہ ہ کا گورنر بنا کر بھیجا جائے اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو کوفہ کاگورنر رہنے دیا جائے۔[4] بہرحال عثمان رضی اللہ عنہ نے شرپسند وں کی تمام ٹولیوں سے الگ الگ مل کر ان کے مطالبات تسلیم کر لیے، اور سب اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے۔[5] جب ان کے مطالبات تسلیم کرلیے گئے اور سب خوشی خوشی اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے تو شورش پسندوں کو اندازہ ہوگیا کہ اب ہمارا |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |