Maktaba Wahhabi

280 - 1201
منصوبہ ناکام ہوچکا ہے، اور ہمارے عزائم پورے ہونے والے نہیں ہیں، چنانچہ فتنہ کی آگ بھڑکانے اور مصالحت کے نتائج کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کے لیے انھوں نے ایک دوسری سازش رچائی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ مصری جب اپنے ملک واپس جا رہے تھے تو راستہ میں انھیں ایک اونٹ سوار ملا، جو کبھی اس قافلہ کے بہت قریب ہوتا اور کبھی ان سے بہت دور چلا جاتا ہے، گویا وہ اشارہ دے رہا تھا کہ مجھے گرفتار کرلو، چنانچہ مصری قافلہ نے اسے گرفتار کرلیا، اور پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کا ایلچی ہوں اور ان کے گورنر کے پاس جارہا ہوں، انھوں نے قاصد کی تلاشی لی اور اس سے ایک خط دستیاب کیا جس میں عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے گورنر کو یہ ہدایت تھی کہ اس وفد کے شرکاء کو پھانسی دے دو یا قتل کردو یا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دو، مصری گروہ نے جب یہ خط دیکھا تو مدینہ واپس لوٹ آئے۔[1] ادھر عثمان رضی اللہ عنہ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس سے لاعلمی ظاہر کی، اور ان سے کہا کہ دو ہی صورتوں میں تمھاری باتوں کو صحیح مانا جاسکتا ہے، مسلمانوں کی گواہی پیش کرو، یا اللہ واحد کی قسم کھاؤ کہ جس کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں، پھر کہا: میں نے ایسا کوئی خط نہیں لکھا ہے نہ لکھوایا ہے، اور نہ ہی مجھے اس کا علم ہے، لکھنے والے کبھی کبھی دوسرے کی طرف منسوب کر کے خط لکھ دیتے ہیں اور اس پر نقلی مہر لگادیتے ہیں۔[2]لیکن انھوں نے بد باطنی کی وجہ سے آپ کی بات نہ مانی حالانکہ آپ سچے اور پرہیزگار تھے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ جس خط کے بارے میں ان باغیوں اور شرپسندوں نے یہ شور کیا کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کا خط تھا، اس پر ان کی مہر لگی تھی، اور وہ صدقہ کے اونٹ پر سوار ہوکر جارہا تھا، اور اس خط میں عثمان رضی اللہ عنہ نے مصر کی باغی جماعت کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا یہ سب جھوٹ اور کھلا ہوا بہتان ہے جسے عثما ن رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کردیا گیا ہے۔[3]اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مصالحت کے بعد عراقیوں کی ٹولی اپنے ملک کی طرف روانہ ہو چکی تھی اور مصریوں کی جس ٹولی نے وہ خط پکڑا تھا، اس کے اور عراقیوں کی ٹولی میں بہت طویل فاصلہ ہوچکا تھا، دونوں کا الگ الگ راستہ تھا، عراقی مشرق میں جارہے تھے اور مصری مغرب میں، اس کے باوجود یہ کیسے ممکن ہوا کہ دونوں ٹولیاں ایک ساتھ مدینہ واپس آگئیں، جیسا کہ دونوں نے ایک مقررہ وقت پر ملنے کا وعدہ کر رکھا ہو؟ یہ بات ہرگز سمجھ میں نہیں آتی؟ لہٰذا یہ ماننا ہوگا کہ جن لوگوں نے جعلی خط تیار کیا تھا اور کرائے پر ایلچی مقرر کیا تھا، کہ وہ خط لے کر جائے اور مقام بویب پر پہنچ کر مصریوں کے سامنے اپناکردار نبھائے انھی لوگوں نے ایک شہ سوار کو کرائے پر طے کیا تھا کہ وہ عراقیوں کو جاکر بتا دے کے مصریوں نے عثمان کا ایک خط پکڑا ہے جس میں انھوں نے مصری باغیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہی بات قرین قیاس ہے، اور اسی کو علی رضی اللہ عنہ نے دلیل بناتے ہوئے ان سے پوچھا: اے کوفہ والو! اے بصرہ والو! تمھیں مصریوں کا یہ واقعہ کیسے معلوم ہوا؟ حالانکہ تم اپنے سفر کی کئی منازل طے کرچکے تھے اور پھر ہماری طرف لوٹ آئے، علی رضی اللہ عنہ نے صرف قیاس ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ پورے وثوق ویقین سے کہا: اللہ کی قسم! اس معاملہ کے تانے بانے مدینہ میں
Flag Counter