Maktaba Wahhabi

687 - 1201
امام ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’لوگ کہتے ہیں کہ مروان نے طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو تیر مارا تھا، حالانکہ اسے علام الغیوب کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور اسے کسی معتمد راوی نے نہیں لکھا ہے۔‘‘[1] محب الدین خطیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’طلحہ اور مروان کے بارے میں یہ روایت لاوارث ہے اس کے ماں باپ کا کوئی پتا نہیں۔‘‘[2] ٭ جس وجہ سے مروان کو طلحہ رضی اللہ عنہ کے قتل میں ملوث کیا جاتا ہے وہ وجہ ہی یکسر غلط ہے اور وہ وجہ یہ ہے کہ مروان طلحہ رضی اللہ عنہ پر تہمت لگاتے تھے کہ انھوں نے قتل عثمان میں مدد کی ہے، حالانکہ یہ بالکل من گھڑت بات ہے، کسی بھی صحیح سند سے ثابت نہیں کہ کسی صحابی نے قتل عثمان کے لیے کسی کی مدد کی ہو۔ ٭ معرکۂ جمل میں مروان اور طلحہ رضی اللہ عنہ اصلاح بین الناس کی منادی کرنے والی جماعت میں ایک ساتھ تھے۔[3] ٭ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں مروان کو مکہ اور مدینہ کا گورنر بنایا، پس اگر مروان کے بارے میں یہ بات صحیح ہوتی تو کاتب وحی معاویہ رضی اللہ عنہ اللہ کے نزدیک روئے زمین کے مقدس ترین شہروں میں انھیں مسلمانوں کا حاکم نہ مقرر کرتے۔ 8 امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جن کے بارے میں یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ آپ روایات کو نقل کرنے کے لیے راویوں کی زندگی اور ان کے احوال کا نہایت باریکی اور گہرائی سے جائزہ لیتے تھے، پھر ان کی روایت نقل کرتے تھے، انھوں نے اپنی صحیح میں مروان بن حکم کی روایت نقل کی ہے۔[4] لہٰذا اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ مروان نے طلحہ کو قتل کیا تھا توان کی روایت کے غیر معتبر ہونے اور عدالت مجروح ہونے کے لیے یہی بات کافی تھی۔[5] 5۔جنگ کے خاتمہ پر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا اعلان: جب جنگ بندی کے آثار نظر آنے لگے تو علی رضی اللہ عنہ نے اپنے منادی سے اعلان کروایا: ’’کسی زخمی پر ہاتھ نہ اٹھاؤ، بھاگنے والے کا پیچھا نہ کرو، کسی کے مکان کے اندر نہ گھسو، جو ہتھیار ڈال دے اسے امان ہے، جو گھر کا دروازہ بند کرلے اسے امان ہے، مال غنیمت صرف اسے سمجھو جو ہتھیار اور دیگر سامان کی شکل میں میدان جنگ تک لایا گیا ہو، اس کے علاوہ دوسرا سامان تمھارے لیے حلال نہیں ہے اور پھر بصرہ کے لشکر میں امیر المومنین کے منادی نے یہ اعلان کیا: میرے لشکر میں جس کے پاس کسی کا اپنا کوئی سامان ملے وہ اسے لے سکتا ہے۔‘‘[6]
Flag Counter