Maktaba Wahhabi

78 - 1201
امیرالمومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ: آپ جلیل القدر فاضلہ اور بزرگ صحابیہ ہیں، آپ کا نام و نسب فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی الہاشمیہ ہے۔ ہاشمی خاندان کی آپ ایسی پہلی خاتون ہیں جن کے بطن سے ایک ہاشمی پیدا ہوا۔[1] آپ کو اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش و خبرگیری کا شرف حاصل رہا، جب عبدالمطلب کی وصیت کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابوطالب کی کفالت میں آئے۔ اپنی حقیقی ماں سے محرومی کے بعد یہی آپ کی ماں تھیں جو آپ کی دیکھ بھال کرتیں، اور حتی المقدور آپ کی خدمت و پرورش کرتیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کی تقریباً بیس سالہ مدت موصوفہ ہی کی نگہداشت میں گزاری، انھوں نے اسلامی دعوت پر لبیک کہا اور مشرف بہ اسلام ہونے والی ان اوّلین خواتین میں اپنا نام درج کرالیا، جنھوں نے عظمت و فضیلت کے میدان میں بلند و بالا مقام حاصل کیا تھا، آپ ممتاز و منتخب خواتین میں سے تھیں، اپنی بہو فاطمہ زہراء کے ساتھ شفقت و محبت کا مثالی برتاؤ پیش کیا، ان کے دادا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر واحترام کے پیش نظر فاطمہ کا ہر ممکن خیال کرتے تھے، امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اپنی ماں سے کہا: پانی لانے اور دیگر ضروریات کے مہیا کرنے میں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کردیا کیجیے، وہ چکی چلا لیا کریں گی اور آٹا گوندھ لیں گی آپ کو نہیں کرنا ہوگا۔[2] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ پرورش کا شرف حاصل ہونے کے ساتھ جس چیز نے آپ کی شخصیت کو دوبالا کیا وہ یہ کہ آپ نے احادیث نبویہ کو یاد کیا اور انھیں روایت کیا۔ چنانچہ بہت ساری احادیث آپ سے مروی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں بڑا اونچا مقام تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس خصوصی تحائف بھیجا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر ’’الاصابہ‘ ‘ میں لکھتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس دبیز ریشم کا ایک جوڑا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ اسے دوپٹوں میں تبدیل کرکے فواطم میں تقسیم کردو۔[3] میں نے اس میں چار دوپٹے بنائے، ایک دوپٹہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے، دوسرا فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کے لیے تیسرا فاطمہ بنت حمزہ رضی اللہ عنہا کے لیے اور چوتھے کا ذکر نہیں کیا۔[4] سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا اپنی زندگی میں اور وفات کے وقت بھی بڑی خوش نصیب ٹھہریں، ان کی عظمت و تکریم کی بات یہ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی آپ کی وفات ہوئی۔[5] آپ کی تدفین سے متعلق انس رضی اللہ عنہ سے ایک تفصیلی روایت مروی ہے جو بالکل ہی ناقابل اعتبار اور انتہائی ضعیف ہے ا ور یہ روایت متعدد اسناد سے وارد ہے، لیکن سب کی سب ضعیف ہے۔ وہ روایت اس طرح ہے کہ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد کی وفات ہوگئی، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور سرہانے بیٹھ گئے اور کہنے لگے:
Flag Counter