Maktaba Wahhabi

78 - 263
تعارُف ومختصر حالاتِ زندگی علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا علامہ غلام رسول سعیدی 10 رمضان المبارک 1356ھ/14 نومبر 1937ء بروز اتوار دہلی میں پیدا ہوئے۔علامہ سعیدی کانام پہلے والدِمحترم کے نام پر’’احمدمنیر‘‘ رکھا گیا تھا بعدازاں آپ کانام ’’شمس الزمان نجمی‘‘ رکھا گیا پھر جب آپ کی عمر اکیس سال ہوئی اور آپ عبادت وریاضت کی طرف راغب ہوئے تو آپ کو اس نام سے تعلّی کے اِدّعاء کے تاثر محسوس ہوا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر ازخود اپنا نام تبدیل کر کے ’’غلام رسول‘‘ رکھ لیا۔[1] آپ کے والد گرامی کا نام محمد منیر ہے۔جو آپ کے بچپن میں ہی انتقال پا گئے۔ ان کے وصال کے بعد آپ کی والدہ محترمہ جن کا نام شفیق فاطمہ تھا نے آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت بڑی توجہ سے کی۔ علامہ غلام رسول سعیدی 79 برس کی عمر میں مورخہ 5 فروری 2016ء انتقال کرگئے۔علامہ سعیدی کی تدفین جامع مسجد اقصیٰ کے احاطے میں کی گئی ہے۔ چھ سال کی عمر میں آپ نے اپنی والدہ محترمہ کے پاس ناظرہ قرآن مجید مکمل کیا اور دس سال کی عمر میں آپ نے پنجابی اسلامیہ ہائی سکول بارہ ٹوٹی دہلی میں پرائمری تک ہی پڑھا تھا اور ابھی تعلیمی سلسلہ جاری تھا کہ برصغیر کی تقسیم عمل میں آئی اور آپ نےاپنے والدین کے ہمراہ بحری جہاز کے ذریعے ہندوستان سے ہجرت فرمائی اور 1947ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان(کراچی)تشریف لائے اور اپنے خاندان کے ساتھ عروس البلاد کراچی میں اقامت پذیر ہو ئے۔کراچی میں آپ نے نویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔معاشی مسائل کی وجہ سے آپ مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔دہلی میں آپ کے والد کا اپنا پریس تھا جس کا نام’’مرچنٹ پریس‘‘ تھا۔یہ پریس اس وجہ سے بہت مشہور تھا کہ ٹرام کے ٹکٹ اس میں چھپتے تھے اور ٹکٹ پر مرچنٹ پریس لکھا ہوتا تھا۔دہلی میں آپ نے بہت عیش وعشرت کی زندگی گزاری‘ ایک خادم آپ کو لانے اور لے کے جانے پر مامور تھا غالباً 1949ء میں آپ کے والد کی وفات ہوگئی۔آپ کی والدہ نے معاشی حالات کی مجبوری کی وجہ سے دوسرانکاح’’محمد عثمان‘‘ صاحب سے کر لیا تو آپ کے سوتیلے باپ نے گزر اوقات میں سہولت کی خاطر آپ سے تعلیم چھڑوا کر آئسکریم بیچنے پر مامور کر دیا ‘پھر اور بھی بہت سے کام کاج کیے‘ سب سے آخر میں آپ نے ’’ماسٹر پرنٹنگ پریس‘‘ نانک واڑہ کراچی میں کام کیا اس کے عقب میں مفتی محمد شفیع دیوبندی کا پرانا دار العلوم تھا۔
Flag Counter