Maktaba Wahhabi

77 - 1201
حوالے نہ کریں گے، اگرچہ خون کی ندیاں بہ جائیں اور قریش کے دیگر قبائل کے ساتھ سخت سے سخت جنگ لڑنا پڑے: کَذَبْتُمْ وَ بَیْتُ اللّٰہِ نُبزی مُحَمَّدًا وَ لَما نُطَاعِنُ دُوْنَہُ وَ نُنَاضِلِ ’’بیت اللہ کی قسم! تم نے غلط سوچ رکھا ہے کہ ہم محمد سے متعلق مغلوب ہوجائیں گے، حالانکہ ابھی تک ہم نے ان کے بچاؤ کے لیے نہ نیزہ زنی کی ہے اور نہ ہی تیر اندازی۔‘‘ وَ نُسَلِّمُہُ حَتَّی نُصْرَّعَ حَوْلَہُ وَ نَذْہَلُ عَنْ اَبْنَائِ نَا وَ الْحَلَائِلِ ’’تم نے غلط خیال کیا کہ ہم انھیں تمھارے حوالہ کردیں گے، ہرگز نہیں ایسا نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ ہم ان کی دفاع میں قتل کردیے جائیں اور ہم تو آپ کی خاطر اپنے بیوی بچوں کو بھی بھول جائیں گے۔‘‘ وَ یَنْہَضُ قَوْمٌ فِیْ الْحَدِیْدِ إِلَیْکُمُ نُہُوضَ الرَّوَایَا تَحْتَ ذَاتِ الصَّلَالِلِ ’’تمھارے مقابلہ کے لیے ہتھیار بند لوگ ایسے اٹھیں گے جیسے پانی پلانے والی اونٹنیاں آواز کرنے والی پکھالوں کے نیچے سے انھیں لے کر اٹھتی ہیں۔‘‘ ابوطالب مسلسل اپنے بھتیجے کی مدد میں لگے رہے اور اپنے بھاری بھرکم قصیدوں کے ذریعہ سے قریشی معاشرہ سے جنگ لڑنے میں کامیاب رہے۔ وہ قصیدے بھی ایسے تھے جنھوں نے پورے سماج کو ہلا کر رکھ دیا اورجب قبائل عرب میں اسلام پھیلنے لگا تو سرداران قریش جمع ہوئے اور آپس میں مشورہ کرکے یہ طے کیاکہ ایک دستاویز تیار کیا جائے جس میں بنوہاشم اوربنومطلب کے بارے میں یہ معاہدہ ہو کہ ان کے خاندان سے شادی بیاہ کے تعلقات ختم کر لیے جائیں، ان کے ہاتھ کوئی خرید و فروخت نہ کرے اور پھر اس معاہدہ کو کعبہ کے اندرونی حصہ پر لٹکا دیا جائے، چنانچہ سبھی نے اس کی پابندی کی، خاندان بنوہاشم اور بنو المطلب کے افراد نے ابوطالب کاساتھ دیا، اوران کے ساتھ وہ بھی ’’شعب ابی طالب ‘‘ میں داخل ہوگئے۔[1] یہ واقعہ نبوت کے ساتویں سال ماہ محرم کا ہے، تین سال تک بنوہاشم اس شعب میں محبوس رہے، چھپ چھپ کر لوگ کچھ پہنچا آتے تھے، بہرحال جو کچھ پیش آناتھا پیش آیا اور بالآخردیمک نے اس عہد نامہ کو چاٹ لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب کو اس کی اطلاع دی اور پھر یہ عہد نامہ چاک کردیا گیا اور اس پر عمل منسوخ ہوگیا۔[2] نبوت کے دسویں سال وسط شوال میں ابوطالب کی وفات ہوگئی، اس وقت ان کی عمر کچھ اوپر اسّی (80) سال تھی، لیکن ابوطالب نے اسلام نہیں قبول کیا۔[3] اسی سال خدیجہ رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وفات پائی، یہ وہ سال تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پے درپے کئی مصائب پیش آئے، اسی لیے اس سال کا نام عام الحزن (غم کا سال) پڑگیا۔[4]
Flag Counter