Maktaba Wahhabi

475 - 1201
4۔ فوت شدہ نمازوں کی قضاء: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کی نماز فوت ہوجائے اس پر اس کی قضاء واجب ہے اور فی الفور قضاء کرلینا مستحب ہے اور آپ نے فرمایا: جب آدمی نماز سے سو جائے یا بھول جائے، تو جب بیدار ہو یا بھولی ہوئی نماز یاد آئے فوراً اسے پڑھ لے۔[1] اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔[2] اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ((إِذَا رَقَدَ أَحَدُکُمْ عَنِ الصَّلَاۃِ أَوْ غَفَلَ عَنْہَا فَلْیُصَلِّہَا إِذَا ذَکَرَہَا فَإِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ: وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ﴿١٤﴾)) (طہ:14) [3] ’’جب تم میں سے کوئی نماز سے سو جائے یا غافل ہوجائے تو جب وہ یاد آئے پڑھ لے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تم میرے ذکر کے لیے نماز قائم کرو۔‘‘ 5۔ نمازِ تراویح: ابوعبدالرحمن السلمی سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے انھیں رمضان میں قیام اللیل (تراویح) پڑھائی ۔ [4] اسماعیل بن زیادہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ رمضان کے مہینہ میں چند مسجدوں کے پاس سے گزرے، ان میں قندیلیں جل رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ عمر رضی اللہ عنہ کی قبر کو نور سے بھر دے جیسا کہ انھوں نے ہماری مسجدوں کو نور سے بھر دیا ہے۔[5] تمام اہل سنت کا اس پر اجماع ہے۔[6] اس کی دلیل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَّ احْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔))[7] ’’جس نے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘ اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ قیام رمضان ہی کا نام تراویح ہے، لہٰذا یہ سنت ہے۔[8] علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک تراویح کی نماز باجماعت پڑھنا افضل ہے۔ آپ خود اس کا اہتمام کرتے تھے،[9] البتہ مردوں اور عورتوں کا الگ الگ امام ہوتا تھا۔ چنانچہ عرفجہ ثقفی سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ ماہ رمضان میں لوگوں کو قیام کا حکم دیتے تھے اور مردوں و عورتوں کے لیے الگ الگ امام مقرر کرتے تھے، عرفجہ کا بیان ہے کہ میں عورتوں کا امام تھا۔[10]
Flag Counter