سے بھی ایسا ہی ہوتا، دونوں دستے ہر روز دن میں ایک مرتبہ صبح یا شام کو پنجہ آزمائی کرتے اور کبھی کبھی دو مرتبہ آمنے سامنے ہوتے، علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں اسے اکثر و بیشتر ان دستوں پر اشتر، حُجر بن عدی رضی اللہ عنہ ، شیث بن ربعی، خالد بن المعتمر اور معقل بن یسار الریاحی رضی اللہ عنہ امارت کے لیے منتخب ہوتے تھے، جب کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج میں سے حبیب بن مسلمہ، عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ عنہما ، عبید اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما ، ابوالاعور السلمی رضی اللہ عنہ اور شرحبیل بن السمط رضی اللہ عنہ امارت کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ فریقین میں سے ہر ایک نے اپنی پوری فوجی قوت جنگ میں جھونکنے سے اجتناب کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو سب کے سب ہلاک ہوجائیں اور یہ امید بھی لگی تھی کہ شاید طرفین میں صلح کا کوئی راستہ نکل جائے اور خون و جانوں کو بچایا جاسکے۔[1] 9۔صلح کی کوششیں اور جنگ بندی کے آثار: ماہ محرم جونہی شروع ہوا فریقین نے صلح کی امیدیں لے کر ایک دوسرے سے گفتگو کا دور شروع کردیا، تاکہ مسلمانوں کا خون محفوظ رہے، یہ پورا مہینا گفتگو کے ادوار اور مراسلات میں گزر گیا، واضح رہے کہ اس پورے مہینا مراسلات کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والی روایت ضعیف اسناد سے وارد ہے۔[2] جسے شہرت مل گئی ہے تاہم اس کی ضعف کی وجہ سے امکان کی نفی نہیں کی جاسکتی۔ مراسلت کا آغاز امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہوا تھا، آپ نے بشیر بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ ، سعید بن قیس ہمدانی اور شیث بن ربعی تمیمی کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اورجس طرح اس سے قبل آپ نے انھیں مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو جانے اور اپنے ہاتھ پر بیعت کرلینے کی دعوت دی تھی، اس مرتبہ بھی وہی دعوت دی، لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس مرتبہ بھی حسبِ سابق جواب دیا یعنی سب سے پہلے قاتلین عثمان ہمارے حوالہ کیے جائیں یا ان سے قصاص لیا جائے، پھر ہم بیعت میں داخل ہوں گے۔ اس جواب کے متعلق علی رضی اللہ عنہ کا کیا موقف تھا اس کی وضاحت ہمارے سامنے آچکی ہے۔[3] اسی طرح طرفین کے مقتدر علماء نے جو کہ بڑی تعداد میں تھے، صفین کے ایک کنارا پڑاؤ ڈال رکھا تھا، انھوں نے دونوں کے درمیان صلح کی مختلف کوششیں کیں، لیکن سب ناکام رہیں، کیونکہ فریقین کا کوئی بھی سربراہ اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔[4] ابودرداء اور ابوامامہ رضی اللہ عنہا دوصحابہ نے فریقین میں مصالحت کرانے کی خاص طور سے کوششیں کیں، لیکن وہ دونوں بھی مذکورہ اسباب کی وجہ سے اپنی مہمات میں ناکام رہے اور دونوں کا ساتھ چھوڑ کر الگ ہوگئے۔[5] اسی |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |