Maktaba Wahhabi

131 - 263
والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر پھیر دے۔‘‘[1] اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ[2]اس آیت میں بھی اللہ کے لیے ہاتھوں کا ثبوت ہے۔ سو اللہ تعالیٰ کے لیے جن آیات اور احادیث میں اعضاء کا ثبوت ہے‘یہ سب اطلاقاتِ مجازی ہیں‘اللہ تعالیٰ کے لیے کسی عضوکا ثبوت محال ہے اور اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ ان آیات میں ان اعضاء سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے۔[3] تجزیہ: متقدمین علماء کا یہی مؤقف تھا کہ اللہ رب العزت کی جو صفات عالیہ وارد ہیں ان کو من وعن تسلیم کرنا لازم ہے مگر ان صفات کو ہم اپنے میں سے کسی کے ساتھ تشبیہ نہیں دے سکتے جیسا کہ یہ ثابت ہے کہ اللہ رب العزت کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں تو وہ ہاتھ تو ہیں مگر وہ ہاتھ ہم میں سے کسی کے ہاتھ کےمشابہ ہیں ایسا کہنا درست نہیں ہے‘مگر متأخرین علماء نے جب دیکھا کہ غیر مسلم اللہ رب العزت کو اعضاء کا محتاج سمجھتے ہیں تو انہوں نے ان وارد اعضاء سے اللہ رب العزت کی قدرت مراد لینے کو مناسب سمجھا اور وہ ان اعضاء سے قدرت الٰہیہ مراد لیتے تھے۔ لیکن درست بات یہی ہے کہ جن اعضاء کا اللہ نے اپنے لیے خود یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات کیا ہے انہیں من وعن تسلیم کیا جائے گا اور نہ تو اس کی تاویل کی جائے گی اور نہ ہی تشبیہ دی جائے گی۔ وہ اللہ ہی جانتے ہیں کہ ان کی کیفیت یا حقیقت کیا ہے۔ لیکن یہودونصاریٰ کے نزدیک اللہ رب العزت کی ذات اقانیم ثلاثہ کا جز ہیں ان کا رد ذیل میں کیا جاتا ہے: دونوں مصنفین کی مشترکہ ابحاث: 1۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کےمتعلق ابن اللہ اور دعوٰی الوہیت کا بطلان از مولانا الوانی رحمہ اللہ: ’’ إِنَّ اللّٰهَ لَا يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ oهُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ‘‘[4] کی تفسیر میں علامہ الوانی رحمہ اللہ لکھتےہیں یہ عقلی دلیل ہے کہ معبود اور مستعان صرف وہی ہوسکتا ہے جو عالم الغیب ہو ہر چیز کو جانتا ہو اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہ ہو اور وہ قادر مطلق ہو اور ہر کام اس کی قدرت کے تحت داخل ہو اس آیت میں پہلی شق بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے اور کوئی چیز اس کے علم محیط سے باہر نہیں اس کے برعکس حضرت عیسیٰ اور حضرت
Flag Counter