Maktaba Wahhabi

130 - 263
وہ ابحاث جو صرف تفسیر تبیان الفرقان میں مذکور ہیں: 1۔اللہ تعالیٰ کے لیے آنکھوں اور دیگر اعضاء کا ثبوت: ’’ وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي‘‘([1])قتادہ نے کہا:اس کا معنی ہے تاکہ میری محبت اور میرے ارادہ کے مطابق آب کو غذا دی جائے۔ یعنی ہم نے آپ کی بہن کا وہاں جانا اس لیے مقدر فرمایا تاکہ آپ کی پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے لیے آنکھوں کا ثبوت ہے اور متقدمین کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آنکھیں ہیں مگر ہماری آنکھوں کی مثل نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’لیس کمثله شیئ... [2] یعنی اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔لیکن متاخرین نے جب دیکھا کہ مخالفین اسلام اس آیت سے اللہ تعالیٰ پر طعن کرتے ہیں کہ آنکھوں کا ہونا جسم کو مستلزم ہے اور جسم حادث ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ کا حدوث لازم آتا ہے تو انہوں نے اس آیت کی تاویل کی کہ میری محبت میں اور میرے ارادہ کے مطابق آپ کو غذا دی جائے۔[3] 1.1۔اللہ تعالیٰ کے لیے اعضاء کے ثبوت کا محال ہونا: ’’ قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ‘‘[4] اس آیت میں ’الید‘کالفظ ہے اور الید کا لفظ کندھے سے لے کر انگلیوں کی اطراف تک کا نام ہے جو کہ گوشت اور ہڈی اور پٹھوں سے بنا ہوا ہے اور یہ تینوں چیزیں جسم ہیں اور اللہ تعالیٰ اجسام سے بلند ہیں اور اجسام کی مشابہت سے مبرّا اور منزّہ ہیں‘کیونکہ جو عضومرکب ہو اس کا اللہ عزوجل پر اطلاق محال ہے ان کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔حدیث میں ہے:حیوہ نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے ابوہانی نے بتایا، انہوں نے ابوعبدالرحمٰن حبلی سے سنا، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا، کہا: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "بنی آدم کے سارے دل ایک دل کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے اسے(ان سب کو)گھماتا ہے۔" اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(دعا کرتے ہوئے)فرمایا: "اے اللہ! اے دلوں کو پھیرنے
Flag Counter