Maktaba Wahhabi

130 - 1201
سے )انکار کیا۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا: کون ہے (وہ بدبخت)جو انکار کرتا ہے، آپ نے فرمایا: ((مَنْ أَطَاعَنِيْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَ مَنْ عَصَانِيْ فَقَدْ أَبَی۔))[1] ’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے میرا انکار کیا۔‘‘ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا مطلب ہے، آپ کی سنت کی پیروی کرنا، دین الٰہی میں آپ کی سنتوں کے خلاف کسی کی کوئی بات ہو تو اس کا انکار کردینا اور سنتوں پر عمل نہ کرنے کے لیے کمزور تاویلات اور من گھڑت و بے سروپا دلائل کا سہارا نہ لینا۔[2] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے ایک تھے جو اطاعت نبوی کے بہت بڑے حریص تھے، چنانچہ آپ کا ارشاد ہے کہ ’’کسی کے قول کی وجہ سے میں سنت نبوی کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘[3] اور فرمایا: ’’سنو! میں نبی نہیں ہوں اور نہ ہی میری طرف وحی نازل کی گئی ہے، لیکن میں اپنی استطاعت کے مطابق اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پرعمل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔‘‘ آپ سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے اوراس کی طرف دعوت دینے والے بے مثل نمونہ تھے۔[4] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے تمام تر افعال اطاعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت اور اتباع سنت کی عظمت کے اسی واضح تصور میں ڈوبے ہوتے تھے، آپ سنت نبوی کا خاص اہتمام کرتے اور اسے قبول کرنے اور روایت کرنے میں تحقیق و تنقیح اور جستجو کرتے، آپ کا قول ہے کہ ’’جب میں تمھیں اللہ کے رسول کی کوئی حدیث بتاؤں تو آسمان سے پھینک دیا جانا مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ بات منسوب کروں۔‘‘[5] اور فرمایا: ’’جب میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بذات خود کوئی حدیث سنی تو اللہ تعالیٰ نے جتنا چاہا مجھے اس سے فائدہ پہنچایا اور جب کسی شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مجھ سے بیان کی تو میں نے اس سے قسم لی، اگر وہ قسم اُٹھا لیتا تو میں اس کی روایت کو مان لیتا۔‘‘[6] آپ ان تمام اُمور سے برسرپیکار رہتے، جو اتباع نبوی کے خلاف ہوں، چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا: ’’اگر دین کا دار و مدار عقل اور رائے پر ہوتا تو موزے کے نچلے حصہ کا مسح کرنا اوپر کے حصہ پر مسح کرنے سے بہتر ہوتا ۔‘‘[7]
Flag Counter