Maktaba Wahhabi

1187 - 1201
اس کا کوئی جواب نہ دیا، البتہ یہ کہا: میں نے اپنی اس تلوار کو چالیس روز تک تیز کیا ہے، کیونکہ میں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ اس کے ذریعہ سے بدترین مخلوق کو قتل کروں گا۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس سے تجھی کو قتل کیا جائے گا اور دنیا میں تو ہی بدترین مخلوق ہے۔[1] 3۔شہادت علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ محمد بن الحنفیہ کی زبانی: ابن الحنفیہ کا بیان ہے کہ میں نے بھی اس رات لوگوں کے ساتھ جامع مسجد میں نماز پڑھی تھی جس میں نمازیوں کی اتنی بڑی تعداد تھی کہ لوگ دروازہ کے قریب تک نماز پڑھ رہے تھے، کوئی قیام میں تھا، کوئی رکوع میں اورکوئی سجدہ میں، پوری پوری رات وہ عبادت کرنے اور نماز پڑھنے سے نہیں اکتاتے تھے، اسی رات کی صبح علی رضی اللہ عنہ فجر کی نماز کے لیے نکلے اور حسب معمول لوگوں کو نماز! نماز! کی ندا دینے لگے، مجھے یاد نہیں ہے کہ آپ دروازہ سے باہر نکل سکے تھے یا نہیں اور نماز! نماز! کی ندا لگا پائے تھے یا نہیں، اتنے میں میں نے ایک چمک دیکھی اور یہ آواز سنی کہ الحکم للہ یا علی لا لک و لا لاصحابک اے علی! حکومت صرف اللہ کی ہے تمھاری اور تمھارے ساتھیوں کی نہیں، پھر میں نے ایک تلوار دیکھی اور پھر فوراً دوسری تلوار پر نظر پڑی، پھر علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: یہ آدمی بھاگ کر نکلنے نہ پائے، لوگوں نے ہر طرف سے اسے گھیر لیا، پھر وہ جنبش نہ کرسکا کہ پکڑ لیا گیا اور علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا، لوگوں کے ساتھ میں بھی آپ کے پاس گیا، آپ فرما رہے تھے: جان جان کے بدلے، اگر میں مرجاؤں تو جس طرح اس نے مجھے قتل کیا ہے اسے بھی قتل کردینا اور اگر میں زندہ بچا تو خود دیکھ لوں گا۔[2] محمد بن الحنفیہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد لوگ گھبراہٹ کے عالم میں حسن رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، ابن ملجم ان کے سامنے مشکوں میں بندھا کھڑا تھا، ام کلثوم بنت علی نے جو کہ اپنے والد کی حالت دیکھ کر رو رہی تھیں، ابن ملجم سے کہا: اے اللہ کے دشمن! میرے باپ کو کوئی ضرر نہ پہنچے گا اور اللہ تجھے رسوا کرے گا، ابن ملجم نے کہا: پھر تم رو کیوں رہی ہو؟ میں نے اس تلوار کو ایک ہزار درہم میں خریدا تھا اور ایک ہزار خرچ کرکے اسے زہر آلودکیا تھا، اگر اس کی ضرب تمام اہل شہر پر پڑے تو بھی کوئی شخص زندہ نہ بچے۔[3] 4۔ علی رضی اللہ عنہ کو طبیب کی نصیحت اور شوریٰ کی طرف آپ کامیلان: عبداللہ بن مالک کا بیان ہے کہ جس دن امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے اس دن کئی طبیب بلائے گئے، اس میں اُثیر بن عمرو السکونی سب سے ماہر طبیب تھا، حاکم کسریٰ بھی اسی سے علاج کراتا تھا، چنانچہ اس نے علاج کے لیے بکری کا گرم پھیپھڑا لیا اور اس سے ایک مخصوص رگ نکال کر علی رضی اللہ عنہ کے زخم میں ڈال دی، پھر اس میں پھونک ماری اور باہر نکالا، دیکھا تو اس میں دماغ کی سفیدی لگی ہوئی تھی، گویا تلوار کی دھار اصل دماغ تک پہنچ چکی تھی، اس
Flag Counter