Maktaba Wahhabi

460 - 1201
مذکورہ خط میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس میں قاضی کے اوصاف ، اس کے حقوق اور واجبات و فرائض بیان کیے گئے ہیں۔ 40ھ یا اس کے قریب والیٔ مصر کے نام امیرالمومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اس تحریر پر جو شخص غور کرے گا وہ تعجب کرے گا کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ دیگر تہذیبوں سے عرب قوم بالکل ناآشنا تھی کس طرح مسلم عقل اللہ کے نور سے دیکھ رہی تھی اور آج کے دستور و قوانین سے کہیں عمدہ شکل میں اس بات پر قادر تھی کہ معانی و مفاہیم کا تجزیہ کرلے اور ملکی انتظامات کو ان کے مناسب مقامات پر رکھے۔[1] رعایا کو انصاف دلانے اور اسے ظلم سے بچانے کے لیے امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اس بالغ نظری سے بعد میں محکمہ فوجداری کو منظم کرنے میں ایک ستون کی حیثیت ملی۔[2] خلفائے راشدین کے عہد میں عدالتی و قانونی لائحہ عمل اور وہ مصادر جن پر صحابہ نے اعتماد کیا: عدالتی و قانونی لائحہ عمل سے وہ طریقہ مراد ہے جسے صحابہ کرام اور خلفائے راشدین نے جدید ترین مسائل اور حوادث کے پیش آنے پر شرعی حل کے طور سے عملاً اختیار کیا۔ انھیں یہ طریقہ اس لیے میسر آیا کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت حاصل کی، چنانچہ اسی وجہ سے بعد میں آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے اس طریقہ پر چلنا واجب قرار پایا۔ ہم نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی شخصیت و کارناموں[3] کے نام سے تالیف کردہ اپنی کتب میں مذکورہ خلفائے راشدین کے عہد اور اس کتاب میں علی رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت کا بغور مطالعہ کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خلفائے راشدین کو جب کوئی نیا حادثہ، یا ناگہانی واقعہ پیش آتا۔ تو وہ لوگ سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتے، اگر اس میں اس حادثہ یا واقعہ کا کوئی شرعی حکم پاجاتے تو معاملہ صاف ہوجاتا، ورنہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے،[4] یہاں تک کہ اگر ان دونوں میں سے انھیں کوئی حل نہ ملتا تو رائے کی طرف لوٹتے لیکن تنگ نظر نہ ہوتے، معاً اس دور کے مطالعہ سے ہم نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ اکثر وبیشتر ان کی آرائیں متفق ہوا کرتی تھیں۔ خاص طور سے اگر کوئی ملکی اور عوامی مسئلہ ہوتا تو سب کے سب کسی ایک رائے پر متفق نظر آتے اور کبار صحابہ کا وجود بھی اس سلسلہ میں ان کا معاون ثابت ہوتا، کیونکہ جب تک وہ صحابہ مدینہ میں مقیم رہے انھیں اکٹھا کرنا اوران سے رائے لینا آسان ہوتا تھا، ان کی اسی اجتماعی رائے کا نام بعد کے ادوار میں ’’اجماع‘‘ کی اصطلاح سے متعارف ہوا، وہ لوگ قیاس اور مصلحت کو بھی اسلامی تشریع کا ایک سبب شمار کرتے تھے، چنانچہ میمون بن مہران اس
Flag Counter