ضرور لیا جائے، کوئی بھی فرد واحد، خواہ وہ فوجی کمانڈر ہو، وزیر خزانہ ہو، کسی ادارہ کا منیجر ہو، یا کسی بھی میدان کا کوئی ذمہ دار ہو وہ تنہا کوئی قرار داد پاس نہ کرے، اس لیے کہ باہمی رائے ومشورہ کا نتیجہ درست ہوا کرتا ہے۔[1] اس میں کئی ذہن شریک ہوتے ہیں اور کئی ماہر وتجربہ کار لوگوں کے افکار و خیالات کا اضافہ ہوتا ہے، لہٰذا جو قرارداد خوب بحث ومباحثہ اور غور فکر کے بعد سامنے آئے گی اس پر سب لوگ متفق ہوں گے اور وہ درستگی کے زیادہ قریب ہوگی۔[2] شورائیت ہی مشورہ سے انجام پانے والے کاموں کی کامیابی کی ضمانت دے سکتی ہے۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’مشورہ کیا کرو، کامیابی مشاروت میں ہے۔ ‘‘[3]اس نصیحت میں آپ نے مشاورت کی کوئی کیفیت اور اسلوب متعین نہیں کیا بلکہ ہمارے سامنے ایک عام قاعدہ پیش کیا اور اس قاعدہ کی تنفیذ کے فوائد بتادیے اور کسی بھی میدان کو مشاورت سے مستثنیٰ نہیں کیا، اس کا مطلب یہ ہواکہ آدمی اپنے ہر عمل کے لیے مشاورت کو ترجیح دے، اور اگر اس کام کا تعلق اجتماعیت سے مربوط ہو، کسی فرد واحد کی بات نہ ہو، تو اس وقت اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح جب ہم علی رضی اللہ عنہ کی اس نصیحت کو بغور پڑھتے ہیں کہ رائے کی درستگی فکر کو مہلت دینے میں ہے۔[4]تو درست رائے پر مبنی قرار داد تک پہنچنے میں اہل حل وعقد کے بھرپور بحث و مباحثہ کی اہمیت واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ [5] 9۔ باصلاحیت سرکاری ملازمین کا انتخاب اور ان کے جان و مال کی حفاظت و ضمانت: اچھے ملازمین اور عہدیداران کا انتخاب حکومت کی ترقی کی راہ میں مشکلات کو رکاوٹ نہیں بننے دیتا، جو بعض اوقات عہدیدار کی کمزوری یا عام ماحول سے اس کی ناموافقت کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی ہیں۔ مالک بن اشتر نخعی کے نام علی رضی اللہ عنہ کے خط پر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گورنروں کے انتخاب کے وقت آپ ان کے اندر چند اہم شرائط کا پایا جانا ضرور ی سمجھتے تھے: ’’ پھر اپنے عہدیداروں کے بارے میں نظر رکھنا اور ان کو خوب آزمائش کے بعد منصب دینا، کبھی صرف رعایت اور جانب داری کی بنا پر انھیں منصب عطا نہ کرنا، اس لیے کہ یہ باتیں ناانصافی اور بے ایمانی کا سرچشمہ ہیں اور ایسے لوگوں کو منتخب کرنا جو تجربہ کار اور غیرت مند ہوں، اچھے خاندانوں میں سے ہوں، اور جن کی خدمات اسلام کے سلسلہ میں پہلے سے ہوں۔ کیونکہ ایسے لوگ بلند اخلاق اور بے داغ عزت والے ہوتے ہیں، حرص و طمع کی طرف کم جھکتے ہیں اور عواقب ونتائج پر زیادہ نظر رکھتے ہیں۔‘‘[6] پس یہ شرائط صر ف کام کرنے کی حد تک مطلوبہ صلاحیت میں محدود نہیں ہیں بلکہ ان میں عامل کی شخصیت کو |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |