پھینکا ہے اور مستقل ایک بحث میں سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنروں کی حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔[1] مزید معلومات کے لیے وہاں رجوع کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ جن لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنروں کو مطعون کیا ہے ان سب کے پیش نظر ضعیف اور بے بنیاد روایات رہی ہیں۔ گورنران عثمان کو مطعون کرنے والی روایات کی حقیقت: پہلي روایت: پہلی روایت واقدی کی سند سے وارد ہے، اس میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھے عثمان نے بلوایا اور حج کا امیر بنا دیا، حج کے بعد جب میں مدینہ واپس آیا، اس وقت علی پر بیعت ہوچکی تھی، میں ان کے گھر پہنچا، دیکھا کہ آپ مغیرہ بن شعبہ کے ساتھ تنہائی میں گفتگو کررہے ہیں، علی رضی اللہ عنہ نے مجھے روک دیا، یہاں تک کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے گئے، میں نے کہا: یہ ابھی کیا کہہ رہے تھے؟ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس سے پہلے انھوں نے مجھ سے کہا تھاکہ عبداللہ بن عامر، معاویہ اورعثمان کے دیگر گورنروں کو ان کے مناصب پر باقی رکھتے ہوئے سب کو پروانہ بھیجئے، یہ لوگ آپ کے لیے اپنی عوام سے بیعت لیں، کیونکہ یہ لوگ ملکی حالات کو پرامن بنائیں گے اور عوام کی ناراضگی کو کم کریں گے، لیکن میں نے اس دن ان کی بات نہ مانی اور کہا: اللہ کی قسم! اگر مجھے دن کے ایک گھنٹہ کے لیے موقع ملا، تو اس سلسلہ میں ضرور سوچوں گا اور ان لوگوں کو یا ان جیسے دوسرے لوگوں کو کبھی گورنر نہ بناؤں گا، پھر وہ چلے گئے اور میں اچھی طرح سمجھ رہا تھاکہ ان کو خوب معلوم ہے کہ وہ غلطی پر ہیں، اس کے بعد آج یہ لوٹ کر آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں نے پہلی مرتبہ آپ کو جو مشورہ دیا تھا، اس وقت آپ نے میری مخالفت کی تھی، پھر اس کے بعد اب میرے ذہن میں ایک دوسری بات آئی ہے، وہ یہ کہ آپ اپنی صواب دید سے جو مناسب سمجھیں کریں، سابقہ گورنروں کو برطرف کردیں اور جن پر آپ کو اعتماد اور اطمینا ن ہو ان سے مدد لیں۔ تمام تعریف اللہ کے لیے ہے۔ ان لوگوں کی پہلی جیسی شان و شوکت نہ رہی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: پہلی مرتبہ انھوں نے آپ کے ساتھ خیر خواہی کی اور دوسری مرتبہ دھوکا دیا۔ علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: کیا انھوں نے میرے ساتھ خیر خواہی کی ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ہاں! اس لیے کہ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ دنیادار ہیں، اگر آپ انہیں ان کے مناصب پر برقرار رکھتے ہیں تو انھیں اس کی پرواہ نہ ہوگی کہ کون خلیفہ بنا اور اگر معزول کرتے ہیں تو کہیں گے کہ خلیفہ بغیر شورائیت کے بنایا گیا ہے اور اسی نے ہمارے سابق خلیفہ کو قتل کیا ہے۔ پھر یہ سب آپ پرپل پڑیں گے، نتیجہ یہ ہوگا کہ اہل شام اور اہل عراق دونوں ہی آپ کی خلافت تسلیم نہیں کریں گے اور میں طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما سے بھی مامون نہیں ہوں کہ وہ آپ پر حملہ نہ کردیں۔ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |