علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے انھیں ان کے مناصب پر باقی رکھنے کی جوبات کہی تو یقینا مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں کی درستی کے لیے دنیا میں اس سے بہتر کوئی چیز نہیں، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنروں کے بارے میں جو میری معلومات ہیں اور حق کا تقاضا ہے کہ میں ان میں کسی کو کبھی یہ منصب نہ دوں، اگر وہ میری بات مانتے ہیں تو ان کے لیے بہتری ہے، اوراگر پیچھے ہٹتے ہیں تو میں ان کے لیے تلوار بے نیام کروں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: آپ میری بات مانئے اور گھر میں بند ہو جائیے، اور ’’ینبع‘‘ اپنی جاگیر میں چلے جائیے، گھر سے باہر مت نکلیے، کیونکہ پورا عرب گردش و بے اطمینانی میں ہے، لوگ گھوم پھر کر آپ کے پاس ہی آئیں گے۔ لہٰذا اگر آپ ان لوگوں کے ساتھ ابھی سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، تو کل سارے لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کا خون آپ کے سرڈال دیں گے۔ لیکن علی رضی اللہ عنہ نہیں مانے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: تم شام جاؤ، میں نے تمھیں وہاں کا گورنر بنا دیا۔ ابن عباس نے کہا: یہ اچھی رائے نہیں ہے بنوامیہ کے اہم فرد معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں اور وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی اور ان کی طرف سے شام کے گورنر ہیں، لہٰذا مجھے خطرہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی وجہ سے کہیں وہ مجھے قتل نہ کردیں، یاکم از کم اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ مجھے قید کر دیں اور مجھ پر دباؤ ڈالیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا کیوں کریں گے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، اس لیے کہ میں آپ کا قریبی ہوں اور جو چیز آپ کے خلاف ابھارنے والی ہے وہ ہمارے خلاف بھی ابھارنے والی ہوگی۔ آپ معاویہ کے نام خط لکھ دیں ان پر احسان کریں اور بھلائی کا وعدہ کریں۔ لیکن علی رضی اللہ عنہ نے انکار کیا اور کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔[1] دوسري روایت: یہ روایت معنی ومفہوم کے اعتبار سے پہلی روایت سے ملتی جلتی ہے، لیکن اس میں کچھ زیادتی اور اختلاف ہے جس سے اس روایت کی صحت پر شبہ ہوتا ہے۔ اس روایت میں ہے کہ ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما عثمان کی شہادت کے بعد مکہ سے واپس آئے، راستہ میں طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہوگئی، ان دونوں کے ساتھ قریش کے کچھ لوگ تھے جو مکہ جارہے تھے…‘‘ یہ روایت حقیقت کے خلاف ہے، کیونکہ جس وقت علی رضی اللہ عنہ پر بیعت ہوئی اس وقت ابن عباس رضی اللہ عنہما لوگوں کو حج کرا کے مکہ سے واپس آچکے تھے، اور طلحہ و زیبر رضی اللہ عنہما علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر چکے تھے، پس مذکورہ روایت کے مطابق جس وقت وہ دونوں مدینہ سے نکل رہے ہوں گے وہ بیعت سے پہلے کا وقت ہوگا اور یہ بالکل واضح غلطی ہے۔ [2] تیسري روایت: یہ روایت ابو مخنف سے بلاسند وارد ہے۔ اس میں ہے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو شام کا گورنر باقی رکھیں اور طلحہ و زبیر کو بصرہ اور کوفہ کا گورنر بنادیں، لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس مشورہ پر اعتراض کیا، اس لیے کہ بصرہ اور کوفہ مال ودولت کا چشمہ اور آمدنی کا خزانہ تھے، لہٰذا اگر ان دونوں کو وہاں کا حاکم بنادیتے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |