Maktaba Wahhabi

564 - 1201
تو دونوں علی کو تنگ کر ڈالتے، جب کہ معاویہ کے لیے شام کی گورنری علی کے حق میں فائدہ مند نہ تھی، بلکہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی تھی، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی، اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے مشورہ کو قبول نہ کیا۔ [1] چوتھي روایت: واقدی کی پہلی روایت ابن عبدالبر نے قدرے اختصار سے نقل کی ہے۔[2] لیکن انھوں نے علی رضی اللہ عنہ کی گفتگو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بجائے حسن رضی اللہ عنہ سے ذکر کی ہے۔ [3] مذکورہ تمام روایات اس اعتبار سے کافی خطرناک ہیں کہ یہی دور حاضر کی اہم ترین تحقیقات کی اساس ہیں اور انھیں کی روشنی میں وہ خطرناک نتائج پیش کیے جاتے ہیں جن میں مجلس شوریٰ کے اکابر صحابہ کو ان کے دین، عدل، اور امانت میں مطعون کیا جاتا ہے اور ان کے بارے میں یہ تصور دیا جاتا ہے کہ وہ لوگ مادہ پر ست تھے، ان کی ساری کوششیں دولت سمیٹنے اور اقتدار حاصل کرنے کے ارد گرد گھومتی تھیں، اگرچہ اس کے لیے مسلمانوں کے خون کا سودا ہی کیوں نہ کرنا پڑے اور یہ کہ ان لوگوں کی ذاتی مفاد پر ستی کی وجہ سے وہ فتنہ برپا ہوئے جن کا انجام شہادت عثمان اور جنگِ جمل کی شکل میں سامنے آیا۔[4] مناسب ہے کہ ان روایات کا فنی تجزیہ کرلیا جائے، چنانچہ مذکورہ روایات کے متون کی بیشتر عبارتوں میں اضطراب اور نکارت پائی جاتی ہے، جن کی تفصیل یہ ہے: ٭ پہلی روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’علی رضی اللہ عنہ کی بیعت مکمل ہوجانے کے بعد ابن عباس مدینہ آئے‘‘ ان صحیح اور موثوق بہ روایات کے بالکل خلاف ہے جن میں صراحت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیعت خلافت ہونے سے پہلے مدینہ آگئے تھے۔ ٭ اسی روایت میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’ انھوں نے علی رضی اللہ عنہ کومشورہ دیا تھا کہ عبداللہ بن عامر، معاویہ اور عثمان کے دیگر گورنروں کو ان کے منصب پر باقی رکھتے ہوئے ان کو پروانہ بھیجئے،‘‘ یہ بات ان روایات کے خلاف ہے جو اس روایت سے کہیں زیادہ صحیح اور موثوق بہ ہیں اورجن سے معلوم ہوتا کہ ان میں بیشتر گورنروں نے عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پاکر اپنی اپنی ریاستوں کو خیر باد کہہ دیا اور مکہ کے لیے روانہ ہوگئے تھے، لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کیسے انھیں ان کے منصب پر باقی رہنے کا پروانہ ارسال فرماتے۔ ٭ اسی روایت میں یہ کہنا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ان گورنروں کے بارے میں کہا: ’’اللہ کی قسم! اگر مجھے دن کی ایک گھڑی کا بھی موقع ملا تو اس سلسلہ میں ضرورسوچوں گا اور ان لوگوں کو یا ان جیسے دوسرے لوگوں کو کبھی گورنر نہ بناؤں گا اور نہ ہی ایسے لوگ اس منصب کے لائق ہیں،‘‘ یہ بات حقیقت کے سراسر خلاف ہے، وہ گورنران امارت
Flag Counter