Maktaba Wahhabi

143 - 1201
مستحق ہو۔ اللّٰہ تعاليٰ نرم خو ہے نرمي کو پسند کرتاہے: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ وَیُعْطِیْ عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِیْ عَلَی الْعَنْفِ۔))[1] ’’اللہ تعالیٰ نرم خو ہے او رنرمی کو پسند کرتاہے اور نرمی پر وہ (نتیجہ) عطا کرتا ہے، جو سختی پر نہیں عطا کرتا۔‘‘ قبل از وقت زکوٰۃ کي ادائیگی: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے قبل از وقت زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس کے بارے میں رخصت دی۔[2] رمضان کا آخري عشرہ: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اپنے اہل خانہ کو بیدار کرتے تھے اور عبادت کے لیے کمر کس لیتے تھے۔[3] سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے احادیث روایت کرنے والے لوگ: آپ اپنے دور خلافت میں تمام صحابہ سے زیادہ سنت کا علم رکھتے تھے، انھیں ایام میں ایک مرتبہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے علی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہوا تو کہنے لگیں: اس وقت جتنے صحابہ باحیات ہیں ان میں علی رضی اللہ عنہ کو سنت کا سب سے زیادہ علم ہے۔[4] لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے باوجود آپ سے کل صرف پانچ سو پچاسی احادیث مروی ہیں، جو کہ بعض دیگر صحابہ کی مرویات کے بالمقابل بہت کم ہیں۔[5] اس کے کچھ اسباب ہیں: ٭ قضاء و عدل، انصرام حکومت اورجنگی مشغولیات کی کثرت سے آپ کو اس بات کا موقع کم ملتا تھا کہ لوگوں کو فتویٰ دیں اور دروس و مواعظ کی مجلسیں منعقد کریں، جب کہ یہی چیزیں عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جیسے دیگر اکابر صحابہ کے علم کی نشر و اشاعت کا سبب بنیں۔ ٭ آپ سے متعلق افراط و تفریط کرنے والوں میں نفس پرستوں اور بدعتیوں کا ظہور ہوا، جس کی وجہ سے آپ پر جھوٹ اور افترا پردازی کی کثرت ہوگئی، اس لیے علماء نے اس کی تحقیق پر زور دیا کہ کیا علی رضی اللہ عنہ تک پہنچنے والی سندیں صحیح ہیں یا نہیں۔
Flag Counter