Maktaba Wahhabi

144 - 263
دوسرےبت خدا خدا ہیں ‘ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ آیت مجوس کے متعلق نازل ہوئی ہے‘کیونکہ وہ کہتے تھے کہ دو خدا ہیں‘خیر کا خالق یزداں ہے اور شر کا خالق اہر من ہے۔ رہایہ سوال کہ ’’الہین‘‘ تو خود تثنیہ ہے تو اس کے بعد ’’اثنین‘‘ کا اضافہ کیوں فرمایا ہے؟ زمخشر ی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ تاکید کے لیے ہے‘اور دوسرا جواب یہ ہے کہ ’’اثنین‘‘ کا اضافہ اس لیے ہے تاکہ معلوم ہو کہ ممانعت تعدد کی طرف راجع ہے نہ کہ الوہیت کی طرف‘کیونکہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت تو سب کے نزدیک مسلم ہے‘اور اس وہم کو دور کرنا ہے کہ اس سے مراد الوہیت کا اثبات ہے نہ کہ وحدت کا‘حالانکہ الوہیت تو اللہ سبحانہ کی فی نفسہا مسلّم ہے‘مشرکین سے اختلاف اس کی وحدانیت میں ہے۔اسی لیے اللہ رب العزت نے فرمایا:’’إِنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ‘‘ یعنی مجھ سے ہی ڈرو اور مجھ ہی کو واحد مانو اور میری ہی اطاعت کرواور میرے غیر کی عبادت نہ کرو۔اگر تم کسی چیز سے ڈرنا چاہتے ہو تو صرف مجھ سے ڈرو۔[1] 3۔موجودہ بندروں کا بنی اسرائیل کے مسخ شدہ بندروں کی نسل سے نہ ہونااز الوانی رحمہ اللہ: ’’فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ‘‘[2] ھا کی ضمیر مذکورہ سزا کی طرف راجع ہے نکالا۔ نکال کے معنی عبرت کے ہیں: نکالا عبرة تنکل المعتبر بها ای تمنعه وتروغه‘لما بین یدیها۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس واقعہ کے ظہور کے وقت قرب و جوار میں موجد تھے۔ ای لمن قرب منها لما حولها من القری([3])وما خلفها وہ لوگ جو اس زمانہ کے بعد ہوں گے۔ ای من جاء بعدهم(نهر)وما یحدث بعدها من القری التی لم تکن(بحر)یعنی ہم نے اس سزا کو موجودہ لوگوں اور آنے والی نسلوں کے لیے عبرت بنا دیا کہ وہ اسے یاد کر کے خدا سے ڈرتے رہیں اور اس کی حدود کی پابندی کرنے کی زیادہ سے زیادہ ترغیب دیتا ہے یا متقین سے عام پرہیزگار اور خدا ترس لوگ مراد ہیں الذین نهوهمعن الاعتداء من صالحی قومهم او لکل متق سمعها[4][5]
Flag Counter