بَعْدِي۔))[1] ’’کیا تم اس بات سے خوش نہیں کہ میرے لیے اس مقام پر رہو جس مقام پر ہارون موسیٰ کے لیے تھے، مگر یہ ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔‘‘ سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں پہلا اسلامی حج اور اس میں علی رضی اللہ عنہ کا اعلانی و نشریاتی کردار: عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اعتقادی، اقتصادی، معاشرتی، سیاسی، عسکری اور تعبدی غرض یہ کہ ہر سطح سے اور ہر میدان میں معاشرہ کی تربیت اور مملکت اسلامی کی تاسیسی کارروائی جاری تھی اور پچھلے سالوں میں خالص اسلامی طرز پر فریضۂ حج کی ادائیگی کا انتظام نہ ہوسکا تھا۔ فتح مکہ کے بعد جو حج ہواتھا اس کی ذمہ داری عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کے سرتھی اور وہ حج مشرکوں کے حج سے الگ نہ تھا۔[2] لہٰذا 9ھ میں جب حج کا وقت آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ کیا، لیکن یہ کہا کہ مشرکین خانہ کعبہ کا طواف ننگے کرتے ہیں او رمیں ان کے ساتھ حج کرنا پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد کو لے کرمکہ کی طرف روانہ ہوئے،[3] ساتھ میں ہدي (قربانی) کے جانوروں کو بھی لیا۔ [4] ابھی آپ حاجیوں کا قافلہ لے کر نکلے ہی تھے کہ سورۂ ’’براء ت‘‘ کا نزول ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا، اور حکم دیا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملو، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ’’عضباء‘‘ پر سوار ہوکر روانہ ہوگئے اور ذوالحلیفہ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں دیکھتے ہی پوچھا: امیر ہو کر آئے ہو یاما تحت ہوکر؟ علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ماتحت ہوکر، اس کے بعد دونوں آگے بڑھے اور مکہ پہنچ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے لیے ان ان جگہوں پر حج کا انتظام کیا جہاں وہ زمانۂ جاہلیت میں اپنے اپنے حج کا انتظام کرتے تھے۔ صحیح روایات کے مطابق اس سال کا حج ذی الحجہ کے مہینا میں پڑا تھا، نہ کہ ذی القعدہ میں جیسا کہ بعض روایات میں مذکور ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یوم الترویہ سے قبل، یوم عرفہ، یوم النحراور بارہ ذو الحجہ کو خطبہ دیا اور لوگوں کو وقوف، افاضہ ، نحر اور رمی جمرات کے دوران حج کا طریقہ سکھاتے اور بتاتے رہے اور ان تمام مقامات پر علی رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے پیچھے سورۂ براء ت کی ابتدائی چند آیات کی تلاوت کرتے اور چار باتوں کا اعلان کرتے: سن لو! جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوگا، اس سال کے بعد کوئی شخص برہنہ ہوکر خانہ کعبہ کا طواف نہیں کرے گا اور جس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی معاہدہ ہے تو وہ اس کے لیے اسی مدت تک ہے اور اس سال کے بعد مشرکین حج نہیں کریں گے۔[5] ساتھ ہی صحابہ کی ایک جماعت کو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کی مہم کی تنفیذ میں ان کی مدد |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |