Maktaba Wahhabi

997 - 1201
اور تمھیں بھی، پھر گڑ گڑا کر دعا کریں ، پس جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔‘‘ وجہ استدلال:… طوسی وغیرہ علمائے شیعہ کے نزدیک یہ آیت کریمہ علی بن ابی طالب کی امامت پر دلالت کرتی ہے، بایں طور کہ اس سے آپ کی افضلیت دو اعتبار سے ثابت ہوتی ہے۔ ٭ مباہلہ کی دعوت اس لیے دی جاتی ہے تاکہ یہ فرق سامنے آجائے کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر اور یہ دعوت و چیلنج وہی دے سکتا ہے جسے خود پر مکمل اعتماد ہو، اپنے عقیدہ کی درستگی پر قطعی یقین ہو، اور یہ اسی شخص کے بس کی بات ہے جو اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ افضل ہو۔ ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت مباہلہ میں أَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ کہہ کر علی رضی اللہ عنہ کو اپنی طرح قرار دیا ہے، اس لیے کہ أَبْنَاءَنَا سے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو مراد لیا اور نِسَاءَنَا سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مراد لیا، اور أَنفُسَنَا سے خود کو اور علی رضی اللہ عنہ کو مراد لیا۔ پس جب علی رضی اللہ عنہ کو آپ نے اپنی طرح ٹھہرا لیا تو یہ بات واجب ٹھہری کہ کوئی آپ کے برابر نہ ہوسکے اور فضیلت میں کوئی آپ کا ثانی نہ ہو۔[1] مذکورہ آیت کو آیت مباہلہ اس لیے کہا گیا کہ فریقین میں جو بھی حق پر ہوتا ہے اس کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ باطل والے کو ہلاک کردیتا تو بہتر ہوتا۔ خاص طور سے جب حق والے کے دلائل قوی اور غالب ہونے کے ساتھ اسی کے حق میں ہوں، اور ہلاکت و دعائے موت کے ذریعہ سے جو چیلنج دیا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودیوں کے نزدیک موت کے مقابل زندگی عزیز اور اس کی اہمیت زیادہ ہے، اس لیے کہ انھیں معلوم ہے کہ مرنے کے بعد ہمارا کیا انجام ہوگا۔ تردید و تنقید: یہ آیت مباہلہ جسے امامت کی بحث میں اثنا عشری شیعہ دلیل بناتے ہیں ان کے لیے حجت نہیں بن سکتی کیونکہ: ا: آیت کریمہ میں وارد صیغہ أَنفُسَنَا کہ جس سے امامیہ شیعہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی نامزدگی خلافت پر استدلال کیا ہے باوجودیکہ یہ صیغہ کثرت معانی و مترادفات کا حامل ہے لیکن نہ حقیقی نہ مجازی کسی بھی معنی میں یہ کلمہ خلافت کے لیے دلیل نہیں بن سکتا، جب کہ اہل سنت نے اس کلمہ کو جس معنی کے لیے استدلال کیا ہے یعنی کہ رسول کرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے نفس کو دعوت دینے اور بلانے کا مطلب ہے کہ بذات خود حاضر ہونا، یا دینی اقرباء یا ہم نسبوں کو حاضر ہونے کے لیے کہنا۔ پس کلمہ ’’نفس‘‘ ان معنوں میں لغت میں بھی وارد ہے اور دین کے بھی موافق ہے، چنانچہ علامہ زبیدی ابن خالویہ کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ ’’النفس الاخ‘‘ نفس بمعنی بھائی ہے۔ ابن برّی فرماتے ہیں کہ اس کی دلیل اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ (النور:61) پس جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے بھائیوں کو سلام کرلیا کرو۔ اور ابن عرفہ نے اللہ کے فرمان: لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ
Flag Counter