وہ تمام احادیث سنداً ضعیف ہیں، پھر آپ نے ابن ابی حاتم کے حوالہ سے ایک روایت نقل کیاہے کہ انھوں نے کہا: ہم سے ایک آدمی نے بیان کیا، پھر آپ نے اس کا نام لیا، اس نے کہا کہ ہم سے حسین الاشقر نے بیان کیا اور انھوں نے قیس سے، قیس نے اعمش سے ، اعمش نے سعید بن جبیر سے اورانھوں نے ابن عباس سے کہ آپ نے فرمایا: جب آیت کریمہ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ نازل ہوئی، تو انھوں نے پوچھا کہ اللہ کے رسول یہ کون لوگ ہیں جن سے مودت و محبت کرنے کا حکم اللہ دے رہا ہے، آپ نے فرمایا: فاطمہ اور ان کے دونوں لڑکے۔ لیکن یہ روایت سند کے اعتبار سے بالکل ضعیف ہے، اس میں ایک متہم اور غیر معروف راوی ہے جو حسین الاشقر جیسے متعصب شیعہ عالم دین سے روایت کر رہا ہے، اس کی خبر اس مقام پر قبول نہیں کی جاسکتی اور یہ بات کہنا کہ آیت کریمہ کا نزول مدینہ میں ہوا بعید تر ہے، کیونکہ یہ مکی سورت ہے اور اس وقت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس قطعاً کوئی اولاد نہ تھی، اس لیے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی شادی علی رضی اللہ عنہ سے 2ھ میں غزوۂ بدر کے بعد ہوئی، لہٰذا اس آیت کی تفسیر میں سب سے معتبر ترجمان القرآن ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر ہوگی۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مذکورہ روایات کے ضعف اور صحیح احادیث سے ان کے متصادم ہونے پر روشنی ڈالی ہے۔[1] احادیث سے دلائل 1۔غدیر خم کا خطبہ: غدیر خم مکہ اور مدینہ کے درمیان جحفہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔[2] رابغ کے مشرق میں تقریباً چھبیس (26) میل کے فاصلہ پر واقع ہے، آج یہ جگہ ’’الغربہ‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔[3] بیان کیا جاتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر لوگوں کے درمیان خطبہ دیا تھا اور اس میں علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کی تھی۔ روافض نے اس واقعہ کو ایک طرف علی رضی اللہ عنہ سے اپنی مبالغہ آمیز عقیدت کے لیے اساس بنایاہے تو دوسری طرف اسے علی رضی اللہ عنہ کے استحقاق خلافت کے ثبوت کی بنیادی دلیل ٹھہرایا ہے۔ انھوں نے دور نبوت کے اس واقعہ کو جو اہمیت دی ہے وہ کسی دوسرے واقعہ کو نہیں دیا۔[4] حتیٰ کہ انھوں نے ’’کتاب الغدیر‘‘ کے نام سے گیارہ (11) جلدوں پر مشتمل ایک کتاب ہی تالیف کرڈالی اور اسے موضوع و ضعیف روایات سے بھر دیا ہے، جب کہ حقیقت واقعہ صحیح مسلم میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یوں بیان ہوا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ اور مدینہ کے درمیان ’’خُم‘‘ نامی ایک چشمہ پر ٹھہرے اور خطبہ دیا، آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور وعظ و تذکیر کیا، پھر فرمایا: ((اَمَّا بَعْدُ: أَ لَا أَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ یُوْشِکُ أَنْ یَّاْتِیَ رَسُوْلُ رَبِّیْ فَاُجِیْبُ، وَأَنَا تَارِکٌ فِیْکُمْ ثَقَلَیْنِ، أَوَلَّہُمَا کِتَابُ اللّٰہِ فِیْہِ الْہُدَی وَ النُّوْرُ فَخَذُوْا کِتَابَ اللّٰہِ وَ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |