Maktaba Wahhabi

287 - 1201
’’ اے علی! انبیاء اور مرسلین کے بعد یہ دونوں جنت کے پختہ عمر اور جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ 2۔ ان دونوں کے لیے دل میں وہی بات رکھتا ہوں جسے کر گزر نا چاہتا ہوں: سوید بن غفلہ کا بیان ہے کہ میں چند شیعوں کے پاس سے گزرا۔ وہ لوگ ابو بکر وعمر کی شان میں گستاخیاں کررہے تھے، پھر میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور کہا: اے امیرالمومنین! ابھی میں آپ کے چند معتقد ین کے پاس سے گزر رہا تھا، وہ لوگ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی شان میں ایسی ایسی باتیں کررہے تھے جو ہر گز ہر گز ان کی شایان شان نہیں ہیں۔ ان لوگوں نے جن باتوں کا اظہار کیا ہے اگر وہ باتیں آپ کے دل میں نہ ہوتیں تو وہ کبھی اس کی جرأت نہ کرسکتے تھے؟ علی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے، میں ان دونوں کے لیے وہی بات دل میں رکھتا ہوں جسے کر گزرنا چاہتا ہوں، اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جوان دونوں کے بارے میں حسن ظن نہ رکھے پھر آپ میرا ہاتھ پکڑکر مسجد میں لے گئے، آپ کی دونوں آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا رہی تھیں، آپ منبر پر تشریف لیے گئے، اطمینان سے بیٹھ گئے، پھر داڑھی کو اپنی مٹھی میں پکڑ کر دیکھنے لگے وہ سفید ہوچکی تھی، تب تک تمام لوگ جمع ہوگئے، پھر آپ کھڑے ہوئے اور نہایت مختصر وبلیغ خطبہ دیا، اور فرمایا: ’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے، مسلمانوں کے دونوں باپوں، اور قریش کے دونوں سرداروں کو کیوں کوستے ہیں؟ یہ لوگ ان کے بارے میں جو کچھ بھی کہتے ہیں ، میں اس کا انکار کرتا ہوں، اور ان نازیبا تبصروں پر ان کو سزا دوں گا، قسم ہے اس ذات کی! جس نے دانہ سے غلہ اگا یا، اور بے ر وح میں جان پیدا کی ان دونوں سے وہ محبت کرے گا جو پرہیزگار مومن ہوگا اور صرف وہی شخص بغض رکھے گا، جو فاجر اور کمینہ ہوگا، پوری صداقت ووفاداری کے ساتھ وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، بھلائیوں کاحکم دیتے رہے، برائیوں سے روکتے رہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان دونوں کی رائے کو سب سے بہتر سمجھتے تھے، ان دونوں جیسی کسی سے محبت بھی نہ کرتے تھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تاعمر ان سے خوش رہے اور تمام مومنین ان دونوں سے زندگی بھر ان سے خوش رہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نو دن مسلمانوں کی امامت کی،[1] اور جب اللہ نے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو وفات دے دی، تو مسلمانوں نے اپنے معاملات ابوبکر کے حوالہ کردیے، ان کو زکوۃ دینے لگے اس لیے نماز اور زکوۃ دونوں ایک ساتھ مذکور ہیں، پھر بہت خوش دلی اور رضامندی سے ان کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی، بنو عبدالمطلب میں سے پہلے میں نے ہی بیعت کی تھی ، حالانکہ وہ اس منصب کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے، ان کو خواہش تھی کہ ہم میں سے کوئی سنبھال لیتا۔ واللہ! اس وقت کے تمام لوگوں میں وہ سب سے اچھے تھے، نہایت رحمدل، نرم طبیعت کے مالک، ورع وتقویٰ کے پکے، عمر اور سبقت الی الاسلام میں سب سے قدیم تھے ہمارے درمیان جب تک رہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر چلتے رہے، اور اسی پر وفات ہوئی، ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ اس منصب کے لیے منتخب کیے گئے، مسلمانوں نے انھیں پسند کیا، اور کچھ لوگوں پر یہ بات گراں گزری، تاہم سب کے سب آپ کی پوری مدت خلافت میں آپ سے راضی
Flag Counter