نے جب ہدہد کو نہیں دیکھا، تو پوچھا ’’مَالِیْ لَا اَرَی الْہُدْہُدَ‘‘ کیا بات ہے میں ہدہد کو نہیں دیکھتا؟ یعنی کیا وہ غائب ہے؟ گویا جو بات اس کے بارے میں آپ کے دل میں کھٹکی اس کے بارے میں دریافت کیا۔[1] پھر کہا: ’’اَمْ کَانَ مِنَ الْغَائِبِیْنَ‘‘ یعنی پہلی مرتبہ عام اور نرم انداز میں پوچھنے کے بعد دوبارہ اہمیت دیتے ہوئے پوچھا: کیا واقعی وہ غیر حاضر ہے۔ گویا سلیمان علیہ السلام یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ غیر حاضر کی بازپرس ہونا چاہیے اور صرف نرمی سے نہیں بلکہ سختی سے، بشرطیکہ غیر حاضری کا کوئی معقول عذر ہو۔[2] پس سچی بات یہ ہے کہ خلافت راشدہ کا دور قرآنی تعلیمات کی عملی تنفیذکا دور تھا۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے اس خط میں مسلم ممالک کی حفاظتی مشینری کی اہمیت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، بالخصوص وہ حفاظتی شعبہ جس کا تعلق خفیہ ایجنسیوں سے ہوتا ہے، تاکہ یہ خفیہ ادارے دین کی خدمت، اس کے بلند وبالا اصول کی نشرو اشاعت، عظیم ترین اہداف ومقاصد اور اعلیٰ اقدار کو عام کرنے میں حکومت کے معاون ثابت ہوں اور مختلف حکومتی ادارے جن پرریاستوں کے نظام وقوانین قائم ہوتے ہیں، وہاں سے بدعنوانی اور فساد کا خاتمہ کرسکیں۔ 9۔ انسانی آبادی کے طبقات اور اقسام: امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ رعایا میں کئی طبقات ہوتے ہیں، جن کی فلاح وبہبود ایک دوسرے سے وابستہ ہوتی ہیں اور وہ ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہوسکتے، ان میں سے ایک طبقہ وہ ہے جو اللہ کی راہ میں کام آنے والے مجاہدین کا ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو عمومی وخصوصی تحریروں کا کام انجام دیتا ہے۔ تیسرا طبقہ انصاف کرنے والے قضاۃ کا ہے۔ چوتھا طبقہ حکومت کے وہ عمال ہیں جن سے امن اور انصاف قائم ہوتا ہے۔ پانچواں طبقہ خراج دینے والے مسلمان اور جزیہ دینے والے ذمیوں کا ہے۔ چھٹا طبقہ تجارت پیشہ واہل صنعت کا ہے۔ ساتواں فقراء و مساکین کا وہ طبقہ ہے کہ جو سب سے پست ہے اور اللہ نے ہر ایک کا حق متعین کردیا ہے اور اپنی کتاب یا سنت نبوی میں اس کی حد بندی کردی، اور مکمل دستور ہمارے پاس محفوظ ہے۔‘‘ پھر چند نصیحتیں کرنے کے بعد آگے فرماتے ہیں: ’’سب کا دار و مدار سوداگروں اور صنعت کاروں پر ہے کہ وہ ان کی ضروریات فراہم کرتے ہیں، بازار لگاتے ہیں اور اپنی کاوشوں سے ان کی ضروریات مہیا کر کے انھیں خود مہیا کرنے سے آزاد کردیتے ہیں، اس کے بعد پھر فقیروں اور ناداروں کا طبقہ ہے جن کی اعانت و دستگیری ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔‘‘ [3] مالک بن اشتر کے خط میں آگے آپ تحریر فرماتے ہیں: |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |