’’ پھر تمھیں تاجروں اور صنعت کاروں کے بارے میں خیال اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ کی ہدایت کی جاتی ہے اور تمھیں دوسروں کو ان سے متعلق ہدایت کرنا ہے خواہ وہ ایک جگہ رہ کر تجارت کرنے والے ہوں یا پھیری لگاکر بیچنے والے ہوں، یا جسمانی مشقت سے کمانے والے ہوں، کیونکہ یہی لوگ منافع کا سرچشمہ اور ضروریات کے مہیا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں، یہ لوگ ان ضروریات کو خشکیوں، تریوں، میدانی علاقوں، پہاڑوں اور دورافتادہ مقامات سے در آمد کرتے ہیں اور ایسی جگہوں سے کہ جہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے اور نہ وہاں جانے کی ہمت کرسکتے ہیں، یہ لوگ امن پسند اور صلح جو ہوتے ہیں، ان سے کسی فساد اور شورش کا اندیشہ نہیں ہوتا، یہ لوگ تمھارے سامنے ہوں، یا جہاں جہاں دوسرسے شہروں میں پھیلے ہوئے ہوں، تم ان کی خبر گیری کرتے رہنا۔ ہاں! اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھو کہ ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو انتہائی تنگ نظر اور بڑے کنجوس ہوتے ہیں، جو نفع اندوزی کے لیے مال روک رکھتے ہیں اور اونچے نرخ متعین کرلیتے ہیں، یہ چیز عوام کے لیے نقصان دہ اور حکام کی بدنامی کا باعث ہوتی ہے، لہٰذا ذخیرہ اندوزی سے منع کرنا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ممانعت فرمائی ہے اور خرید و فروخت صحیح ترازو اور مناسب نرخ کے ساتھ بسہولت ہونا چاہیے کہ نہ بیچنے والے کو نقصان ہو نہ خریدنے والے کا خسارہ ہو، اس کے بعد بھی جو ذخیرہ اندوزی کے جرم کا مرتکب ہوتو اسے مناسب حد تک سزادینا پھر خصوصیت کے ساتھ اللہ سے خوف کھانا۔ ‘‘[1] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی نصیحت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تاجروں اور صنعت کاروں کا طبقہ معاشرہ کی ایک اہم رگ ہے، اسی لیے آپ نے اپنے عمال کو مستقل ایک شعبہ کے قیام کے ذریعہ سے اس طبقہ پر خصوصی توجہ دینے اور اس کے حالات سے واقفیت حاصل کرتے رہنے کی طرف توجہ دلائی، تاکہ اس میں حرص اور ذخیرہ اندوزی جیسے ناپسندیدہ خصائل پیدا نہ ہوں اور ان دونوں کو نقصانات و مشاکل کا سامنا کرنا پڑے۔ لہٰذا ضروری تھا کہ اس طبقہ کو اس کے مقاصد تک پہنچنے، اس کی مدد کرنے اور اس کے احوال و ظروف پر مطلع ہونے کے لیے ایک مستقل حکومتی شعبہ ہو۔[2] انھیں طبقات میں سے اہل خراج کا بھی ایک طبقہ ہے۔ یہی لوگ زمین کو آباد کرتے ہیں، ان میں کھیتی باڑی کرنے والے کسان، کنویں کھودنے والے لوگ شامل ہیں، یہ لوگ بھی توجہ طلب ہیں اور ان کے لیے مستقل ایک ادارے کی ضرورت ہے جو ان کی شکایات کو سنے ا ور مشکلات کو حل کرے، اس میں مشکلات آئیں گی کیونکہ یہ زمین میں سرمایہ کاری کا ایک ذریعہ ہے۔ اسی رعایا کا ایک طبقہ اہل ذمہ بھی ہیں جو کہ اسلامی ملک میں رہتے بستے ہیں اور اس میں کاروبار کرتے ہیں، لہٰذا ملک کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اقتصادی و معاشرتی مسائل کی نگران سوسائٹی کے ذریعہ سے ایسے لوگوں کی |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |