Maktaba Wahhabi

919 - 1201
’’جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اپنے ایمان کے بعد، سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اور لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے تو ان لوگوں پر اللہ کا بڑا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘ فرد معین کی تکفیر کے موانع: ٭ بھول چوک ٭ لاعلمی ٭ مجبوری ٭ عاجزی[1] جب تک فردِ معین سے کفر اور قابل لعنت امور کے بارے میں نادانستہ غلطی، لاعلمی، بھوک چوک، عاجزی اور مجبوری میں ہو اس پرکفر کا حکم نہیں لگایا جاسکتا اور نہ اسے شرعی وعید کا مستحق ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی فرد معین کو شرعی وعید کا مستحق ٹھہرانے کے راستہ میں دس رکاوٹیں ہیں: توبہ واستغفار، گناہوں کو مٹانے والی نیکیاں، مومنوں کی دعائیں، میت کے لیے اعمال خیر، بروز قیامت گناہ گاروں کی بخشش کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کی سفارش، وہ مصائب جو دنیا میں گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں، قبر میں قبر کی آزمائشوں اور تکالیف سے گزرنا، یہ بھی گناہوں کے لیے کفارہ ہیں۔ قیامت کی ہولناکیوں، تکالیف اور مشکلات، بندوں کی کوشش کے بغیر اللہ کی رحمتوں اور بخششوں کی بارش۔ یہ دس اسباب ہیں جو وعید کے مستحق گناہ گاروں کو وعید کے درجہ تک پہنچنے سے روکتے ہیں،[2] پس اگر یہ تمام اسباب معدوم ہوجائیں اور یہ اسی بدنصیب کے حق میں معدوم ہوں گے جو تمرد و سرکشی کی انتہا کو پار کر جائے اور اللہ کے خلاف ایسے ہی مطلق العنان ہوجائے جیسا کہ اونٹ اپنے مالک کے کھونٹے کی رسی توڑ بھاگے، تو بس یہی شخص وعیدکا مستحق ہوگا۔ ایسی صورت میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان سرکشی کی اس منزل کو نہیں پہنچ چکا ہے تو اس کے لیے وعید کا کیا فائدہ؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ وعید کا مقصود اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ فلاں عمل عذاب الٰہی کا سبب ہے، اس لیے وہ عمل حرام اور قابل مذمت ہے اور یہ کہنا کہ جب آدمی کے ساتھ بھی وہ سبب پایا جائے اس پر مسبب بہ کا حکم لگانا ضروری ہوجاتا ہے،قطعاً غلط ہے، کیونکہ مسبّب کا وجود شرط کے وجود اور تمام موانع کے زوال پر موقوف ہے۔[3] جو کافر کو کافر نہ کہے وہ کافر ہے: ایک بات جو لوگوں پر تکفیری کوڑے چلانے والوں کی زبان پر عام ہوتی جارہی ہے وہ یہ کہ ’’جو کسی کافر کو کافر نہ کہے وہ کافر ہے۔‘‘ ایسے لوگوں نے اپنے نظریات کے مخالفین کے لیے اس قاعدہ کو عام طور سے استعمال کرنا شروع کردیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے مذکورہ بات کا صحیح مقام نہیں پہچانا اور نہ ہی اس کا مفہوم اچھی طرح سمجھ سکے، لہٰذا جو کافر کی تکفیر نہ کرے اسے اسی کی طرح کافر ہونا لازم آتا ہے اس سے مراد وہ کافر ہے جس کے کافر ہونے کا قطعی علم ہو، یعنی اس میں کفر کی تمام شرائط موجود اورموانع معدوم ہوں، اسی طرح اس کافر کے درجہ میں وہ سارے لوگ ہیں جو شروع ہی سے کافر رہے اور کبھی اسلام میں داخل نہیں ہوئے جیسا کہ فرعون، ابوجہل، ابولہب
Flag Counter