Maktaba Wahhabi

617 - 1201
تنقیدی گفتگو کی ہے جو عائشہ اور عثمان رضی اللہ عنہما کے درمیان سیاسی اختلاف ظاہر کررہی ہیں اور انھیں امام طبری وغیرہ نے ذکر کیاہے، آپ ان روایات کا جھوٹ واضح کرنے کے بعد فرماتی ہیں: ’’زیادہ مناسب بات تو یہ تھی کہ ان تمام روایات کو ہم بالکل ذکر ہی نہ کریں، اس لیے کہ ان میں سے کوئی روایت بسند صحیح ہم تک نہیں پہنچتی، بلکہ جن اسناد سے بھی یہ روایات منقول ہیں سب کے راوی تشیع، کذب بیانی اور رفض سے متہم ہیں۔ پھر بھی ہم نے اس لیے ان روایات پر بحث کرنا مناسب سمجھا کہ بیشتر جدید تحقیقات میں یہی روایات مشہور اور زبان زد عام ہیں اور ان کے غیر معتبر ہونے پر دلیل دینا ضروری ہے۔ یہ روایات -جیسا کہ ہم نے دیکھا- ہمارے سامنے عثمان وعائشہ اور عثمان و دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان اختلاف و نفرت کی ایک ایسی تاریخ پیش کرنا چاہتی ہیں جن کا سرے سے کوئی وجود نہیں رہا۔‘‘ [1] اگر بفرض محال یہ صحیح ہے کہ عثمان کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے ساز باز کرلی تھی تو اس بات کی توقع کرنا چاہیے کہ شہادت عثمان کے بعد ان متمردین کے لیے آپ ضرور کوئی عذر تلاش کرتیں، لیکن اس سلسلہ میں آپ رضی اللہ عنہا سے کوئی بات ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کھینچ تان کر ان میں سے کوئی روایت صحیح بھی ثابت ہوجائے تو بھی ہم اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، کیونکہ ان کی خلافت کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کی ایسی سچی شہادت موجود ہے جو ان روایات کی تردید کے لیے کافی ہے، لیکن ہم نے اس یقین کی بنا پر ان روایات کے سامنے توقف اختیار کیا ہے کہ خود یہ روایات ناقابل اعتبار ہیں اور ان سے استدلال کے سہارے جو اصول قائم ہوں گے وہ بھی ناقابل اعتبار ہوں گے، یہاں تک کہ ایسے دینی، علمی، اور تاریخی دلائل اکٹھا ہوجائیں جن میں ایک کی دوسرے سے تائید ہوتی ہو۔ سچ یہ ہے کہ جو تہمتیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سر تھوپی گئیں ہیں وہ اسنادی حیثیت سے ثابت نہیں ہیں اور نہ ہی عقلی دلائل کا مقابلہ کرنے کی ان میں تاب ہے۔ [2] 2 طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما : سیّدنا طلحہ، زبیر اور دیگر اکابر صحابہ نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ ان لوگوں سے قصاص لیجئے جو عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک ہیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان کو جواب دیا: بھائیو! جو کچھ آپ جانتے ہیں اس سے میں بھی ناواقف نہیں ہوں، مگر میں ان لوگوں کو کیسے پکڑوں جو اس وقت ہم پر قابو یافتہ ہیں نہ کہ ہم ان پر۔ تم دیکھ رہے ہو کہ تمھارے غلام ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، پاس پڑوس کے دیہاتی ان کے ساتھ جمع ہیں، وہ تمھارے درمیان رہ کر جس طرح چاہتے ہیں تمھیں مجبور کررہے ہیں۔ ایسی حالت میں کیاآپ حضرات اس کام کی کوئی گنجائش کہیں دیکھ رہے ہیں جسے آپ کرنا چاہتے ہیں؟ سب نے کہا: نہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! جو تمھاری رائے ہے وہی میری بھی رائے ہے ان شاء اللہ۔ لیکن یہ حالات بعینہٖ زمانۂ جاہلیت کے حالات ہیں، اور اس قوم میں ابھی جاہلیت کا مادہ پایا
Flag Counter